پہلے تو میں حیران ہوا کہ اگر یہ کمپنی مجھے اتنی چھوٹی رقم واپس نہ کرتی، مجھے ای میل ہی نہ کرتی تو مجھے کیا پتا چلنا تھا۔ دوسرا اس کی پاکستانی چند روپوں سے بھی کم قدر بنتی ہے، اس سے مجھے کیا فرق پڑنا تھا؟
اسی طرح دفتر پہنچنے سے پہلے میں اکثر قریبی بیکری سے ناشتے کے لیے ایک سینڈوچ لیتا ہوں۔ ایک دن مجھے اندازہ ہوا کہ میرا بل دو یورو پچپن سینٹ بنتا ہے لیکن خاتون میرے کارڈ سے دو یورو پچاس سینٹ کاٹتی ہیں۔ میں نے ایک دن کہا کہ آپ پانچ سینٹ کم لے رہی ہیں۔ اس کا جواب بالکل سادہ سا تھا، حکومت نے ٹیکس معاف کیا ہے تو آپ کے پانچ سینٹ اس وجہ سے نہیں کاٹے جاتے۔
اب دیکھنے میں یہ بہت چھوٹی سی چیز ہے۔ نہ تو دو سینٹ کی کوئی خاص اہمیت ہے اور نہ ہی پانچ سینٹ آپ کو غریب یا دولت مند بنا دیتے ہیں۔ لیکن ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات آپ کا ملک کے نظام عدل، نظام کی مضبوطی، قانون کی پاسداری اور ایمانداری پر اعتماد بڑھا دیتے ہیں۔
آپ سرکاری مشینری، حکومت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد پر اندھا یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک احساس پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ زیادتی نہیں ہو گی، کوئی آپ کو دھوکہ نہیں دے گا۔
پاکستان میں بدقسمتی سے ہم یہ احساس پیدا نہیں کر پائے۔ حکومت ادویات کی قیمت کم کرتی ہے لیکن اگلے دن زیادہ قیمتوں والی ادویات مارکیٹ میں ہوتی ہیں اور کسی کو پتا تک نہیں چلتا کہ ہو کیا رہا ہے؟
میں پاکستان جاتا ہوں تو بازار سے کچھ بھی خرید کر لاؤں، گھر والے یہی کہتے ہیں کہ یہ تو بہت مہنگی لے آئے ہو۔ یعنی آپ کسی بھی دکاندار کے پاس چلے جائیں، جوتا خرید لیں، کپڑے خرید لیں، سونا خرید لیں، آپ کو یہی پتا نہیں چلتا کہ اس کا معیار کیا ہے اور اس کی قیمت کتنی ہونی چاہیے؟
اور مزے کے بات ہے کہ ایسے 70 فیصد دکاندار ماشااللہ باریش ہیں اور پنجگانہ نماز بھی پڑھتے ہیں۔
چند برس قبل میرا ایک جرمن دوست ہارالڈ مجھے سے ملنے نوشہرہ ورکاں آیا تو ہم بازار چلے گئے۔ ایک بہت اچھے اور پرہیز گار جاننے والے نے مجھے سے کہا کہ یہ مسلمان کیوں نہیں ہو جاتا؟
میں نے کہا کہ جب یہ سمجھے گا، اس کا دل کیا تو شاید کبھی ہو جائے۔ ہم نے ان سے دو چیزیں خریدیں اور یقین کریں انہوں نے ہمیں بازار سے بھی ڈبل قیمت پر دیں۔ شاید وجہ یہ تھی کہ میں جرمنی میں رہتا ہوں اور یورو میں کماتا ہوں۔ میں نے ان کو بلا چوں چراں ادائیگی گی لیکن دل میں یہ ہی سوچا کہ ہم پرہیز گاروں کی ایسی ہی حرکتوں کی وجہ سے یہ مسلمان نہیں ہوتا۔
یعنی ہم نے عبادات کو اپنے اعمال کا متبادل سمجھ لیا ہے، ہمارے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں یہ بات بیٹھ چکی ہے کہ کسی کو دھوکا دے لو، کسی کو ناقص چیز فروخت کر دو، کسی سے اضافی رقم نکلوا لو، کسی سے جھوٹ بول لو، نماز پڑھ کر اسے معاف کروا لیں گے۔ رشوت کے پیسوں سے حج کر کے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، کسی غریب یا امیر کا حق مار کر مسجد میں چندہ دے دیں گے تو سب کچھ بہتر ہو جائے گا۔
ہم اس بنیادی نقطے کو ہی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اعمال اور عبادات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
آپ کی عبادات لوگوں سے کیے گئے دھوکے کا متبادل نہیں ہیں۔ میں نے کئی مرتبہ دکاندار کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہ بہت امیر بندہ ہے، اس کے پیسے اسی طرح نکلوانے ہیں، سو ڈیڑھ سو سے بھلا اسے کون سا فرق پڑتا ہے؟ یعنی ذہنوں میں بیٹھ چکا ہے کہ کوئی امیر ہے یا جس کے پاس آپ سے کچھ زیادہ ہے تو آپ کو اس سے زیادتی کرنے، اسے دھوکا دینے کا حق حاصل ہے۔
میں ایک مرتبہ اپنے ایک جاننے والے دکاندار کے پاس کھڑا تھا۔ وہاں ایک خاتون آئی، ساتھ ایک آٹھ نو برس کا بچہ بھی تھا۔ بچے کی ٹوٹی ہوئی پلاسٹک کی جوتی اور ماں کے بوسیدہ سے کپڑے دیکھ کر ہی لگ رہا تھا کہ بہت غریب خاندان ہے۔ خاتون نے کہا کہ بھائی جی، یہ اسکول کی وردی ہم غلط لے کر چلے گئے تھے، پلیز اسے تبدیل کر دیں۔
میرے جاننے والے دکاندار نے پہلے تو اسے غصے والی نظروں سے دیکھا، ماتھے پر بل آئے، پھر کہا کہ یہ تبدیل نہیں ہو سکتی۔ پھر خاتون کے ترلوں اور اصرار کے بعد کہنے لگے کہ ابھی صبح کا وقت ہے، دو چار گھنٹے بعد آئیے گا اور ساتھ یہ بھی بات سنائی کہ اب نئی وردی کے پیسے زیادہ ہوں گے۔
وہ خاتون بیچاری کہتی رہی کہ بھائی ہم اُس گاؤں سے آئے ہیں، اتنی دیر کیا کریں گے یہاں بازار میں اور وردی کا بس رنگ تبدیل کرنے کے اتنے زیادہ پیسے کیوں دیں؟
لیکن وہ دوست اپنی بات پر اٹکے رہے اور وہی کیا، جو وہ چاہتے تھے۔
اب جرمنی میں آپ دس مرتبہ کپڑے اور جوتے خریدیں اور دس مرتبہ واپس کریں، مجال ہے کوئی آگے سے اُف تک کرے اور آپ کو گھور کر دیکھے۔ کئی مرتبہ تو ایسے بھی ہوا ہے کہ میرے پاس رسید نہیں تھی اور دکاندار نے مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا ہی مال ہے، آپ واپس کر سکتے ہیں۔
قانون ہے کہ 14 دنوں کے اندر اندر ایک صارف چیز واپس کر سکتا ہے۔ ہر دکاندار کو اس قانون کا پتا ہے کہ یہ صارف کا حق ہے کہ وہ خریدی ہوئی چیز واپس کرے۔ زیادہ تر دکانیں 14 دن کے بعد بھی چیز واپس لے لیتی ہیں۔ نہ کوئی یہ کہتا ہے کہ دو چار گھنٹے بعد آئیے گا اور نہ ہی کوئی دوسرے رنگ کے لیے پیسے زیادہ طلب کرتا ہے۔
یہ نہیں کہ پاکستان میں ایمانداری سے کام کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے لیکن ایسے لوگ ناپید ہوتے جا رہے ہیں، تیزی سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ معاشرے کی اکثریت دھوکے، فریب، جعلی اشیا بیچنے میں مصروف ہے اور اسے اپنا حق بھی سمجھتی ہے۔ اب اس میں سبھی شامل ہیں، جو مسجد جاتے ہیں وہ بھی اور جو نہیں بھی جاتے وہ بھی۔
آج کے مسلمانوں اور آج کے کافروں میں بس یہی 'دو سینٹ‘ کا فرق ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔