پاکستان اور بھارت اب کہاں کھڑے ہیں؟
14 اگست 2017دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں آج بھی جنوبی ایشیا اقتصادی ترقی کے اعتبار سے کہیں پیچھے ہے۔ برطانیہ ہی سے آزادی لینے والے شمال مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک جنوبی ایشیا کے مقابلے میں کہیں آگے نکل چکے ہیں۔
ستر برس قبل ہندواکثریتی بھارت اور مسلم اکثریتی پاکستان کی تخلیق کے ساتھ برصغیر کی دو حصوں میں تقسیم کے بعد یہ دونوں ریاستیں سماجی اور اقتصادی طور پر قریب ایک ہی سطح پر تھیں، جہاں غربت، ناخواندگی اور کئی طرح کے مسائل موجود تھے۔ مگر ستر برس بعد ان دونوں کے درمیان یہ فرق خاصا بڑھا ہے۔
آزادی کے وقت بھارت کو یہ فوقیت حاصل تھی کہ وہاں برطانوی حکومت کی جانب سے بنائے گئے ادارے موجود تھے۔ اسی طرح شہری آبادی، صنعت اور ٹرانسپورٹیشن انفراسٹکچر کے اعتبار سے بھی بھارت کی حالت پاکستان سے بہتر تھی۔ مگر دوسری جانب پاکستان زراعت کے شعبے میں بھارت سے کہیں آگے تھا کیونکہ برصغیر کے انتہائی زرخیز سمجھے جانے والے علاقے پنجاب کا بڑا حصہ پاکستان کے حصے میں آیا تھا۔
آزادی کے وقت دونوں ممالک کا عزم تھا کہ وہ اپنے اپنے ہاں اقتصادی ترقی لاتے ہوئے لاکھوں غریب افراد کی زندگیوں میں بہتری پیدا کریں گے۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں دونوں ممالک نے سوویت یونین کی معیشت سے متاثرہ پالیسیوں کی جانب جھکاؤ دکھایا اور اپنے اپنے ہاں مرکز سے کنٹرول کی جانے والی معیشتیں کھڑی کرنے کی کوشش کی، تاہم دونوں ہی ممالک میں پالیسیوں میں عدم تسلسل اور پروٹیکشنسٹ سوچ اس اقتصادی ترقی کی راہ میں رخنے ڈالتی رہی۔
اسی دوران بھارت میں اندرا گاندھی اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نے متعدد صنعتی اور مالیاتی اداروں کو قومیانے کی پالیسی بھی قریب ایک سی اپنائی، جس کا مقصد بڑھتی ہوئی غربت کو کسی طرح قابو میں لانا تھا۔ ان پالیسیوں سے عدم مساوات میں تو کمی آئی مگر دونوں ممالک کی معیشیتوں کی شرح نمو بھی کم ہو گئی، جس کی ایک وجہ غیر ملکی سرمایہ کاری کا رک جانا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان پالیسیوں کے ذریعے ان دونوں ہی رہنماؤں نے اپنے اپنے ہاں اصل میں عدم مساوات میں مزید اضافہ کر دیا۔
پاکستان میں 80 کی دہائی میں افغان جنگ کے دوران فرقہ واریت اور مذہبی منافرت میں شدید اضافہ ہوا اور ان عناصر نے پاکستانی اقتصادیات اور عوام کی زندگیوں پر بے پناہ منفی اثرات چھوڑے۔
اس وقت بھارتی اقتصادی ترقی پاکستان سے کہیں آگے نکل چکی ہے، جہاں اس مرتبہ بھی ماہرین اقتصادیات سات اعشاریہ پانچ فیصد سالانہ کی شرح سے اگلے پانچ برس تک کے معاشی پھیلاؤ کی توقع کر رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب اگلے پانچ برس کے لیے پاکستان کی معیشت میں سالانہ بنیادوں پر پانچ فیصد کی نمو کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔
اسلام آباد حکومت اب چین پاکستان اقتصادی راہ داری کے منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس سے چینی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کر رہے ہیں اور ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اس طرح پاکستانی اقتصادیات میں اگلے پانچ برسوں کے دوران نمایاں تیزی پیدا ہو سکتی ہے۔