1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آن لائن ہراسانی، ایک گھناؤنا قدم ایک وبال جان

3 ستمبر 2020

پاکستان میں آن لائن ہراسانی کے واقعات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ اور ان کی نوعیت میں سنگینی دیکھی جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ کی دستیابی کے ساتھ آن لائن ہراسانی کے واقعات میں واض اضافہ دیکھا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3hvsQ
Deutschland | DW | Bloggerin Rabia Bugti
تصویر: privat

’’میں پسینے میں شرابور ساکت اپنی جگہ پر کھڑی تھی۔ میرا موبائل فون میرے ہاتھ میں ہی تھا لیکن اگلی طرف سے لائن کاٹی جا چکی تھی۔ جو بات میرے کانوں نے سنی تھی اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی حدت  افسوس کی تھی، ڈر کی تھی یا پشیمانی کی مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا۔‘‘

میں نے اس کی بات  مزید ماننے سے انکار کر دیا تھا اور اس نے میری چند تصاویر میرے گھر والوں کو بھیج دی تھیں۔ جو پہلا خیال میرے ذہن میں آیا تھا وہ مر جانے کا تھا۔ حالت ایسی تھی کہ کاٹو توخون بھی نہ نکلے۔ وہ زناٹے دار طمانچہ میرے کانوں میں تا عمر گونجتا رہے گا جو میری ماں نے فوری ردﺍعمل کے طور پر مجھے رسید کیا تھا۔ وہ تھپڑ مجھے آج تک نہیں بھولا۔وہ تھپڑ ہر بار گھر کی دہلیز پار کرتے وقت مجھے یاد دلایا جاتا ہے باوجود اس کے کہ اس سب میں میرا قصور نہیں تھا۔

منال کہتی ہے کہ جب بھی وہ اس کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ کرتی تھی وہ شخص اس کے گھر والوں کو فون ملا کر دوسرے نمبر سے اسے دھمکانے لگتا تھا کہ اگر اس کی مانگ پوری نہ ہوئی تو وہ اس تمام معاملے میں اس کے خاندان والوں کو بھی گھسیٹ لے گا۔

پاکستان کی صحافی خواتین تقسیم کا شکار کیسے ہوئیں؟

اساتذہ کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کے واقعات

منال بتاتی ہیں کے بھلے ہی انہوں نے خود کشی جیسے عمل سے خود کو دور رکھا لیکن ان کی روحانی اور جذباتی موت اسی دن واقع ہو گئی تھی۔ لیکن یہ کہانی صرف منال کی نہیں ہے بلکہ آن لائن ہراساں کی جانے والی ہر اس لڑکی کی روداد ہے جو اس تکلیف دہ عمل سے گزری ہو۔ بات خواہ باہمی رضامندی سے تصاویر کے تبادلے کی ہو یہ چرائی گئی تصویروں کے ساتھ ہیر پھیر کی اس کا خمیازہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کو بھگتنا پڑتا ہے جو اکثر اوقات بڑا درد ناک ہوتا ہے۔

زیادہ تر ان معملات میں قصور وار لڑکی ہی ٹھرائی جاتی ہے اور بلیک میل کرنے والے کا دامن عموماﹰ صاف ہی رہتا ہے۔ جیسا کہ منال کے ساتھ ہوا۔ لیکن منال کا تعلق خوش قسمتی سے ان چند خاندانوں میں سے ایک ایسے خاندان سے تھا جنہوں نے معاملے کو ناصرف سمجھا بلکہ اس کے خلاف لڑنے کا فیصلہ بھی کیا۔

جب اس تمام معاملے کا عقدہ کھلا تو معلوم ہوا کہ سو سے زائد خواتین اس شخص کے پلان کردہ منصوبے کا شکار تھیں اور وہ مختلف طریقوں سے ان خواتین کو ہراساں کر کے اپنی مانگیں پوری کرواتا رہا تھا اور یہ شخص چوں کہ بہت  مہذب اور نامور ادارے کے ساتھ منسوب تھا کسی عام شخص کا اس پر ہاتھ ڈالنا بھی محال تھا۔ گویا لوگ اس طرح بھی اپنی طاقت اور اثر رسوخ کا استعمال کرتے ہیں۔ ایسے میں ہمارے پدرشاہی نظام میں ایک عورت کا جینا اور مرنا دونوں ہی باعثِ تکلیف ہوجاتے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جیسے جیسے برقی آلات جدید اور انٹرنیٹ کی رسائی سستی اور آسان ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے ان واقعات میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے۔  ڈیجٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق  انہیں ان کی ہیلپ لائن پر ایک سال میں چار ہزار سے زائد کالز موصول ہوئیں جن میں سے تقریباﹰ نصف کے آس پاس خواتین نے کی تھیں۔ جب کہ آن لائن ہراساں ہونے والی خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ لیکن ایک ایسے معاشرے میں جس میں قصوروار ہمیشہ کمزور کو سمجھاجاتا ہے یہ صرف وہ کیسز ہیں جو سامنے آئے یا  درج کرائے گئے ہیں لیکن ہم سب بخوبی اس بات سے واقف ہیں کہ یہ رجحان آٹے میں نمک برابر ہے۔

ہمارے ملک میں جہاں ابھی تک غیرت کے نام پر قتل ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے وہاں نجانے کتنے ایسے کیسز بھی ہوں گے جو 'بدنامی‘ کے ڈر سے تا دمِ گور منظرِعام پر ہی نہیں آتے ہوں گے۔ اس بات کی سب سے بڑی مثال قصور میں ہونے والے زیادتی کے انگنت واقعات ہیں اور ان پر اداروں کی معنی خیز اور پر اسرار خاموشی ہے۔

ارے صاحب یہ تو ایک اور کہانی ہوجائے گی۔ اس پر پھر کبھی بات سہی ابھی معملہ ہے آن لائن بلیک میلنگ کا۔

پاکستانی خواتین صحافی آن لائن ہراسانی کے خلاف متحد

ارے جانے دیں یہاں تو ایسی ترسی ہوئی عوام بھی ہے جو آپ کو آپ کی ہی تصویر کاپی کر کے بھیج دے گی، آپ کے انباکس میں  کیسی ہو شہزادی یا مجھ سے دوستی کرو گی جیسی بکواسیات فرما کر خود کو تاریخ کا فاتح سمجھنے لگے گی اورکچھ لوگ تو گھٹیا پن کے پاتال کی پستی میں پائے جاتے ہیں جو آپ کا سر آپ کی تصویر میں سے کاٹ کر کسی پرہنہ جسم والے عکس کے اوپر چسپاں کر کے آپ کو بھیج دیں گے۔ یہ کن لوگوں کے ہاتھوں میں انٹرنیٹ جیسی سہولت آ گئی ہے، اپنے دماغ کا گند کہاں کہاں پھیلا رہے ہوتے ہیں اور اس کا اثر کتنا گھیرا اور اذیت ناک ہوتا ہے انہیں شاید اندازہ ہی نہیں ہوتا۔

اس موضوع پر لکھنے سے پہلے مجھے علم تھا کہ قائرین کا ردِعمل کیا آنے والا ہے۔ لڑکی خراب ہے، حرافہ ہے اور دو نمبر ہے، کہنے سے پہلے ہی آپ لوگوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ کچھ ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جن میں متعلقہ اداروں کو خواتین نے سابقہ منگیتر یا شوہر کی جانب سے ہراسانی کی شکایات درج کروائی ہیں۔ حد تو یہ کہ ایک تو عمل انتہائی مکروہ اور دھمکیاں اس سے بھی زیادہ ہولناک۔ جن میں مزید تصاویر کی مانگ، مالیاتی فراڈ اور اپنے سمیت دوستوں کے ساتھ بھی ہمبستری جیسی ذلیل قسم کی باتیں کی جاتی ہیں جو کسی معصوم کی زندگی ختم کر دینے اور گھر والوں کے لیے عمر بھر کا روگ بن سکتی ہیں۔

منال واقعے میں اس شخص کا تعلق انتہائی معتبر شعبے سے تھا اور اس نے اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے نجانے کتنی لڑکیوں کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کی تھی۔ طاقت اور مقام رکھنے والے لوگوں کو یہ زعم ہوتا ہے کہ وہ کسی کو بھی جسمانی ذہنی اور اخلاقی اذیت میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ ان کا یہ ایک مشغلہ کسی کی زندگی پر ایک انَ مٹ داغ بن کر رہ جائے گا اس بات سے انہیں قطعی کوئی غرض نہیں ہوتی۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ واقعات صرف عام مظلوم لوگوں کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ ماضی میں بہت سی نامور شخصیات کے ساتھ ایسے حادثات ہوئے ہیں۔ جن میں ہماری تفریحی صنعت کے چند نام بھی شامل ہیں۔

بات گھوم پھر کر واپس اسی نقطے پر آکر رک جاتی ہے، کس پر کتنا بھروسہ کرنا ہے اور کب کرنا ہے کوئی نہیں جانتا لیکن اپنے معاشرے کے بگڑتے ہوئے حالات کو دیکھتے ہوئے یہ بات تو طے ہے کہ ہمیں ایک مکمل اور جامع تربیتی کیمپ کی ضرورت ہے جس میں یہ سکھایا جائے کہ آپ اور آپ کے گھر والوں کے علاوہ بھی لوگ انسانوں کے زمرے میں آتے ہیں اور عزت پر ان کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا کہ آپ کا۔