1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اساتذہ کے ہاتھوں جنسی ہراسانی کے واقعات

سعدیہ احمد
21 اگست 2020

کچھ عرصہ قبل ایک نجی اسکول میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراسانی کا معاملہ سامنے آیا۔ ہمارا ماتھا ٹھنکا کیونکہ وہیں ہماری کچھ پرانی طالبات بھی پڑھ چکی تھیں۔ ایک طالبہ سے رابطہ کیا اور اس نے جو کچھ بتایا، اس پر دل ڈوب گیا۔

https://p.dw.com/p/3hHfu
DW Urdu Blogerin Sadia Ahmed
تصویر: privat

میں نام ظاہر نہیں کر سکتی لیکن اپنی اس پرانی شاگرد کے الفاظ ضرور بتا سکتی ہوں، ''مس! یہ تو ایک بات کھلی ہے، اصل مسئلہ تو کہیں بڑھ کر ہے۔‘‘

اسی گفتگو کے دوران یہ بھی یاد آیا کہ یہ مسئلہ بھی نیا نہیں۔ بس سامنے اب آیا ہے۔ ہمارے زمانہ طالب علمی کے دوران بھی ایسے واقعات اکثر سامنے آتے تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک استاد صاحب کے بارے میں مشہور تھا کہ کوئی طالبہ ان کے کمرے میں اکیلی نہ جائے۔

ایک اور استاد تھے، جو محض اس بات پر کچھ لڑکیوں کے نمبر کاٹ لیتے تھے کہ ان کے ساتھ خوش گپیاں نہیں لگاتی تھیں۔ اس وقت بس یہی فکر ہوتی تھی کہ کس طرح دامن بچانا ہے۔ لیکن آج کی فکریں کچھ اور ہیں۔

باقی اساتذہ کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے لیکن ہمارا ذاتی تجربہ تو یہی ہے کہ استاد اور شاگرد کا رشتہ بعض اوقات والدین اور اولاد سے بھی بڑھ کر محسوس ہوتا ہے۔ بہت سی ایسی باتیں، جو بچے اپنے والدین کے ساتھ نہیں کر سکتے، اساتذہ سے کر لیتے ہیں۔ استاد کا کام محض کتابیں رٹوانا اور ڈگریاں دلوانا ہی نہیں بلکہ شاگرد کی زندگی میں ایک مشعل راہ کا کردار ادا کرنا ہے۔ اسے وہ روشنی دکھانا ہے، جو زمانے کی تاریکی میں کھو جاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

پاکستان میں جنسی تعلیم کی اشد ضرورت ہے

بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کا اسکینڈل

ایسے میں اگر استاد ہی طالب علم کا مان توڑ دیں، انہیں ہراساں کریں، ان کی زندگی کو بنانے کی بجائے بگاڑ دیں تو اس رشتے کا تقدس تو ملیا میٹ ہو گیا۔ کچھ دن پہلے جامعہ کراچی کی ایک طالبہ کے بارے میں پڑھا، جس نے اپنے پی ایچ ڈی سپروائزر کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی۔ ایسے میں استاد کا مقام کیا ہوا؟

ہمارے ہاں ایک رواج ہے کہ جو شخص عمر یا رشتے میں بڑا ہو، اسے سب معاف کر دیا جائے۔ اسے عزت کے اس سنگھاسن پر بٹھایا جائے، جہاں سے سب کیڑے مکوڑے لگیں۔ استاد کے حقوق کے بارے میں بہت کہا جاتا ہے۔ استاد کی حرمت اور عزت پر صفحے کالے کیے جاتے ہیں۔ لیکن استاد کے فرائض کیا ہیں، یہ کون جانے گا؟ وہ بھلے کسی مدرسے کا استاد ہو یا کسی اسکول کالج کا، کیا اپنے رتبے کی پامالی پر اس سے زیادہ پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہیے؟

ہم نے تو جو اتنے سالوں میں دو چار بال سفید کیے ہیں، ان کا یہی نچوڑ ہے کہ عزت کرائی نہیں کمائی جاتی ہے۔ اور یہ شاید دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ اپنے پیٹی بند بھائیوں سے یہی التماس ہے کہ طلبا کو اپنی اولاد کی جگہ جانیے اور اپنے پیشے کا تقدس جانیے۔ بخدا! ایک مرتبہ یہ سمجھ آ جائے تو اس کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔