1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آپ کا مطلوبہ امیدوار جیل میں ہے

DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
سعدیہ مظہر
29 دسمبر 2023

تمام تر ریاستی جبر کے باوجود پاکستان میں تحریک انصاف اس وقت عوام میں مقبول ترین جماعت ہے۔ یہ بات طہ ہے کہ چہرہ کوئی بھی ہوں اگر وہ خان کے نام پر ووٹ لینے آئے گا تو عوام کے دروازے اس کے لیے کھلے رہیں گے۔

https://p.dw.com/p/4aePw
DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
تصویر: privat

پاکستان حالتِ سلیکشن، اوہ! میرا مطلب ’الیکشن‘میں ہے۔ الیکشن کمیشن ، نگران حکومت اور عدلیہ سب کا دعویٰ ہے کہ یہ الیکشن تاریخ کے شفاف ترین انتخابات ہوں گے ، بالکل ویسے ہی شاید جیسے 1970ء  میں ہوے تھے؟ ان  شفاف انتخابات کا ماحول بنانے والے اداروں کی کوششوں سے بظاہر اسطرح لگتا ہے کہ ملک میں دھاندلی کرنے والی ایک ہی سیاسی جماعت ہے اور اگر اس کے چاروں طرف بڑی بڑی دیواریں کھڑی کر دی جائیں تو ملک کامیاب الیکشن کے بعد تیز ترین ترقی کی جانب گامزن ہو جائے گا۔ اور عوام کیا سوچتی ہے یہ سکے کا دوسرا رخ ہے۔

تحریک انصاف پر 9 مئ کے واقع کی پاداش میں مشکل ترین وقت کا ابھی بھی اختتام نہیں ہوا۔ کچھ لوگ پریس کانفرنس کر کے پاکباز ہوئے اور کچھ نئی جماعتوں میں شامل ہو کر۔ اب ڈٹ جانے والوں کی سیاہ رات کتنی لمبی ہے اس حوالے سے کچھ کہنا ممکن نہیں مگر کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے چار روز ملک میں دنگل جیسے ثابت ہوئے ۔

 تحریک انصاف کی جو قیادت جیل میں ہے وہ جیل ہی سے الیکشن لڑنے کے لیے پرعزم ہے۔ صنم جاوید نے مریم نواز کے مقابلے میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ، شاہ محمود قریشی، یاسمین راشد ، میاں محمودالرشید اور بہت سے وہ نام جنہیں عوام پہلے صرف چاہتی تھی مگر اب عقیدت کی حد تک چاہنے لگی ہے۔ کاغذات نامزدگی کے دوران تحریک انصاف کے امیدواروں پر تشدد اور خواتین کے ساتھ شدید بدتمیزی کا سلوک روا رکھا گیا مگر پھر بھی  اس وقت الیکشن کمیشن میں سب سے زیادہ درخواستیں تحریک انصاف کی جانب سے جمع کروائی گئیں۔

 859 سیٹوں کے لیے 2434 کاغذات نامزدگی جمع کروائے جا چکے ہیں ۔ دوسری جانب  تحریک انصاف سے بلے کا نشان  واپس لے لیا گیا تھا، جو  مخالفین کے خوف اور بوکھلاہٹ کو واضح کر رہا ہے ۔ تحریک انصاف کی لیگل ٹیم کی کوششوں سے یہ بلا،  خان کی جماعت کو واپس تو مل گیا تو کیا اب یہ "بلا " الیکشن میں اپنا زور دیکھا پائے گا۔ عوام کے ذہن اس وقت لاتعداد سوالات اور دل  شاید امید سےبھرے ہوئے ہیں۔

پاکستانی آئین جیل سے الیکشن لڑنے کی اجازت صرف اس صورت دیتا ہے اگر جیل میں قید شخص کو مجرم قرار نہ دیا گیا ہو، جیسا کہ خان پر فرد جرم عائد کر دی گئ ہے اور انہیں نااہل قرار دیا جا چکا ہے مگر پھر بھی خان کو انتخابات لڑنے کی امید ہے۔

ماضی کے ورق پلٹے جائیں توسن 1970 کے انتخابات میں مولانا کوثر نیازی جیل میں تھے اور انہوں نے ناصرف یہ کہ جیل سے الیکشن لڑا بلکہ جیتا بھی تھا۔1977ء  میں چوہدری ظہور الہی نے جیل سے الیکشن لڑا اور ان کی انتخابی مہم چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری شجاعت حسین نے چلائی تھی۔پرویز مشرف کے دور میں جب،  شوکت عزیز وزیر اعظم بنے تو اس وقت مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما جاوید ہاشمی جیل میں تھے اور وہ جیل سے  شوکت عزیز کے مقابلے میں وزیر اعظم کے امیدوار تھے۔

گویا تاریخ میں سیاست جیل سے عوام تک رسائی کا ایک کامیاب ذریعہ رہی ہے۔ پاکستان میں  تحریک انصاف اس وقت تمام تر ریاستی جبر کے باوجود عوام کی مقبول ترین جماعت ہے۔ عثمان ڈار کی والدہ کا الیکشن میں کاغذات نامزدگی اور مونس الہی کی والدہ کا الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ چہرہ کوئی بھی ہوں اگر وہ خان کے نام پر ووٹ لینے آئے گا تو عوام کے دروازے اس کے لیے کھلے رہیں گے۔

 پی ٹی آئی کے اہم امیدواروں کے کاغذات نامزدگی اگر الیکشن کمیشن منظور کر لیتا ہے تو اگلا مرحلہ انتخابی مہم کا ہے، جس کے لیے آئین اور قانون ان امیدواروں کوجیل سے انتخابی مہم چلانے کی کوئی سہولت نہیں دیتا اس لیے ان کی انتخابی مہم ان کے گھر والے اور عوام  ہی چلا سکتے ہیں لیکن نتائج واضح ہیں: سیاسی قید ، قید کم اور کامیابی کا راستہ زیادہ ہوتی ہے اور عوام کے نزدیک عدالتی فیصلوں کے باوجود تحریک انصاف کے امیدواروں کو رہا نہ کرنا ریاستی جبر ہے، جس نے عوام کا رخ اب اسمبلیوں اور دوسری جماعتوں سے ہٹا کر جیل کی طرف کر دیا ہے۔ یہ الیکشن دلچسپ ہونگے کیونکہ تحریک انصاف عوام کو یہ بتانے گی، '' آپ کا مطلوبہ امیدواروں جیل میں ہے۔‘‘

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔