آڈیٹر جنرل کی رپورٹ: سیاست دانوں اور ماہرین کی تشویش
26 اکتوبر 2020سیاست دانوں اور ماہرین نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی اس حالیہ رپورٹ پر اظہار تشویش کیا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاور ڈویژن میں تقریباً تین کھرب روپے کے پبلک فنڈز کو یا تو صیح طرح استعمال نہیں کیا گیا یا اس کے استعمال میں بے ضابطگیاں کی گئیں۔
ان بے ضابطگیوں کا انکشاف آڈٹ رپورٹ دوہزار انیس بیس میں کیا گیا ہے۔ انگریزی روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق آڈٹ رپورٹ آٹھ ماہ کی تاخیر کے بعد حال ہی میں قومی اسمبلی میں پیش کی گئی۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاور ڈویژن اور اس سے منسلک اداروں کے تین سو اٹھارہ ایسے کیسز ہیں، جس میں دو اعشاریہ نو سو پینسٹھ کھرب روپے کا صیح معنوں میں استعمال نہیں کیا گیا۔
تشویش کی لہر
پی پی پی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کا کہنا ہے کہ اگررپورٹ کوسنجیدگی سے نہیں لیا گیا تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی متعلقہ ادارے کا احتساب کرے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پاکستان کے پاور سیکٹر کے مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ دو کھرب سے زیادہ کا گردشی قرضہ ہوگیا ہے، جس میں روزانہ اضافہ ہورہا ہے۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے بجلی کی قیمت میں اضافہ ہوگا، جس سے عام آدمی کی مشکلات مزید بڑھیں گی۔ اگر حکومت نے اے جی پی کی رپورٹ کے اعتراضات کو دور نہ کیا تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس کا احتساب کرے گی۔ اتنے بڑے پیمانے پر بے ضابطگیاں باعث تشویش ہے۔"
معروف معیشت دان قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کی مالی مشکلات میں مےید اضافہ ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اب آئی ایم ایف کہے گا کہ بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کریں، جس سے صنعتی پیداوار متاثر ہوگی کیونکہ بجلی کے مہنگے ہونے سے لاگت بڑھے گی اور ممکنہ طور پر پیداوار اور ایکسپورٹ متاثر ہوگی، جس کی وجہ سے مزید بے روزگاری بڑھے گی۔"
ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے بجٹ سے تجاوز کرنے پر متعلقہ ڈویژن کے فنڈز فوری طور پر روک دینے چاہیں۔ "ہمارے ہاں بجٹ کے بعد ضمنی بجٹ آتا ہے، جس پر بحث نہیں ہوتی اور ایسے ہی اسے منظور کر لیا جاتا ہے۔ اگر کسی ڈویژن کو ایک سہ ماہی میں فرض کریں پچیس ارب روپے خرچ کرنے ہیں اور وہ تیس ارب خرچ کرتی ہے، تو اس کے بجٹ کو روک لینا چاہیے۔ اس کے علاوہ نوکر شاہی کے افراد کے سیر سپاٹے ختم کرنے چاہییں تاکہ اخراجات کو کنٹرول کیا جا سکے۔"
صنعت کا جنازہ
معروف صنعت کار فیصر احمد شیخ کا کہنا ہے کہ یہ رپورٹ بہت پریشان کن ہے۔ "مہنگی بجلی ہونے کے باوجود گردشی قرضہ پانچ سو سے چھ سو ارب روپے سالانہ بڑھ رہا ہے۔ ہماری صنعتیں پہلے ہی بھارت اور بنگلہ دیش سے مقابلہ نہیں کر پارہی ہیں، تو اب جب بجلی مزید مہنگی ہوگی تو صنعت کا تو جنازہ نکل جائے گا۔ پچاس فیصد روپے کی قیمت میں کمی کے باوجود صرف دو فیصد ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا ہے لیکن اب اس رپورٹ کے بعد پاکستان کی مالی مسائل میں بے گناہ اضافہ ہوگا۔"
پی ٹی آئی ایکشن کرے گی
پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان کا کہنا ہے کہ ہم رپورٹ کو سنجیدگی سے لیں گے۔ "حکومت پوری کوشش کرے گی کہ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں جو اعتراضات یا انکشافات ہیں، ان پر کام کیا جائے۔ بے ضابطگیوں یا کرپشن کا سدباب کیا جائے۔ چاہے ایسے کاموں میں ارکان اسمبلی، وزیر یا بیوروکریٹس ملوث ہوں سب کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ خان صاحب نے ماضی میں بھی سولہ سولہ اراکین کو کرپشن کے الزامات پر پارٹی سے نکالا ہے اور اب آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بھی اگر کسی کا نام آیا تو سخت احتساب ہوگا۔"
عبد الستار اسلام آباد