آکسفیم کے بعد ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کو جنسی اسکینڈل کا سامنا
15 فروری 2018فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں قائم بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے ایک بیان کے مطابق جنسی استحصال سے متعلق 146 شکایتوں کے بعد کیے جانے والے فیصلے میں ڈیڑھ درجن سے زائد ملازمین کو فوری طور پر ملازمتوں سے فارغ کر دیا گیا۔
ان ڈیڑھ سو کے قریب شکایتوں میں سے چالیس ایسی تھیں جن کا تعلق جنسی زیادتی یا استحصال سے تھا۔ ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے بیان میں بتایا گیا ہے کہ ان شکایتوں میں سے چوبیس پر انکوائری کے بعد مناسب انتظامی کارروائی کے نتیجے میں انیس ملازمین کو فوری طور پر نوکریوں سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔
افغانستان میں داعش کی کارروائی، اس بار نشانہ امدادی ادارہ
فاٹا میں ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے طبی مراکز بند
حافظ سعيد کے گِرد گھيرا تنگ، وجہ امريکا، سياست يا ملکی مفاد؟
شامی مہاجر بچوں کی تعلیم کے لیے لاکھوں ڈالر کی امداد غائب
یہ امر اہم ہے کہ تنازعات کے شکار مختلف ملکوں میں فرانس سے تعلق رکھنے والی اس بین الاقوامی غیر سرکاری طبی امدادی تنظیم کی میڈیکل سروسز میں ملازمت کرنے والے افراد کی تعداد چالیس ہزار کے قریب ہے۔ ان میں ڈاکٹروں کے علاوہ دیگر عملہ بھی شامل ہے۔
بین الاقوامی امدادی اداروں میں جنسی اسکینڈلز کے سامنے آنے کا سلسلہ گزشتہ بدھ کو برطانوی ادارے آکسفیم کے ملازمین کے بارے میں غیر معمولی انکشاف سے شروع ہوا ہے۔ اس اسکینڈل کے مطابق آکسفیم کے عملے نے کریبییئن ملک ہیٹی میں سن 2010 کے زلزلے کے بعد امدادی کارروائیوں کی تکمیل کے دوران طوائفوں کو بھی ملازمتوں پر رکھا اور پھر اُن کا نامناسب استعمال بھی کیا گیا۔
اس برطانوی امدادی ادارے کی نائب سربراہ نے جنسی استحصال کے اس اسکینڈل کے بعد استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔ برطانوی حکومت نے آکسفیم پر واضح کیا ہے کہ اگر اُس نے جنسی اسکینڈل کی شفاف تحقیقات کرنے کے بجائے اِس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی تو اُس کی امداد کو روکا بھی جا سکتا ہے۔
آکسفیم کو برطانوی حکومت کی جانب سے بھی امدادی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے خصوصی فنڈ فراہم کرتی ہے اور گزشتہ برس اس مقصد کے لیے آکسفیم کو چھتیس ملین یورو کی فنڈنگ دی گئی تھی۔