1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فاٹا میں ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے طبی مراکز بند

محمد علی خان، نیوز ایجنسی روئٹرز
14 ستمبر 2017

پاکستان نے بدھ کے روز طب کے شعبے میں سرگرم عالمی امدادی ادارے ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کو افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقوں میں کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ادارے کو فاٹا میں طبی مراکز بند کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2jzcm
تصویر: Reuters/D.Balibouse

ایم ایس ایف (ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز) وفاقی حکومت کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) کی کرم ایجنسی میں اپنے دو طبی مراکز میں مقامی افراد کو صحت کی سہولیات فراہم کر رہی تھی۔ ادارے کے مطابق اس علاقے میں یہ تنظیم گزشتہ چودہ برسوں سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھی۔

شیعہ اقلیت اور مردم شماری عملے کو نشانہ بنایا: جماعت الاحرار

پاکستان کے چالیس فیصد عوام غربت کا شکار

فاٹا میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران سکیورٹی صورت حال بہتر ہوئی ہے تاہم عسکریت پسندوں کی جانب سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر حملوں کے واقعات اب بھی رونما ہوتے ہیں جن میں عام طور پر شیعہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رواں برس جون کے مہینے میں کرم ایجنسی کے علاقے پاراچنار کے ایک مصروف بازار میں دو دھماکے کیے گئے جن میں تقریباﹰ پچھتر افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

نوجوانوں کے ليے ايک موقع، فاٹا يونيورسٹی

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ ایم ایس ایف فاٹا میں بنیادی صحت اور طبی سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ پاکستان کے ان علاقوں میں جہاں صحت کی بنیادی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں اور شرح خواندگی بھی کافی کم ہے۔

ایم ایس ایف کی جانب سے  میڈیا کو جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا، ’’پاکستان نے ہمیں فاٹا کے قبائلی علاقوں میں اپنے طبی مراکز پر کام جاری رکھنے کے لیے جاری کردہ ’این او سی‘  کی توسیع کرنے سے انکار کر دیا ہے۔‘‘

پاکستان میں ایم ایس ایف کی نمائندہ کیتھرین موڈی نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ پاکستانی حکام کے اس فیصلے پر کئی غیر سرکاری تنظیموں سمیت خود ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈز بھی حیران اور نالاں ہے۔ کیتھرین موڈی کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم قریب ڈیڑھ عشرے سے اس علاقے میں صحت عامہ کی سہولیات فراہم کر رہی تھی۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ غیر ملکی افراد اور اداروں کو پاکستان کے ان علاقوں میں کام کرنے کے لیے حکام سے اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستانی غیر سرکاری تنظیمیں اور صحافی بھی جب ان  قبائلی علاقوں میں کام کرتے ہیں تو انہی بھی کئی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہے۔

ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کے ایک طبی مرکز میں کام کرنے والے ڈاکٹر محمد اسحاق کا کہنا تھا کہ یہ تنظیم علاقے کے لوگوں کے لیے بہترین طبی سہولیات مہیا کر رہی تھی اور حکام کی جانب سے این او سی کی توسیع سے انکار کرنا ناقابل فہم ہے۔

شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایم ایس ایف کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ پابندی کے بعد علاقے کے مریض متاثر ہوں گے۔ ان کے مطابق ان مراکز پر ایم ایس ایف کے ستر کے قریب تربیت یافتہ اہلکار تعینات تھے۔

جس حکومتی اہلکار نے ایم ایس ایف کو این او سی کی توسیع نہ کیے جانے اور مراکز بند کیے جانے کے بارے میں اطلاع دی، اس کا کہنا تھا، ’’میں نے ویسا ہی کیا جیسا کہ حکام بالا نے مجھے حکم دیا، لیکن مجھے معلوم نہیں کےایم ایس ایف کے مراکز کو کام کرنے سے روکے جانے کے پیچھے کیا عوامل کارفرما ہیں۔‘‘

خیبر ایجنسی میں زمینی، فضائی آپریشن: تیرہ دہشت گرد ہلاک

فاٹا ریفارمز میں نظر انداز کیے جانے پر خواتین کے تحفظات