اب زیادہ طوفانی بارشیں ہوا کریں گی کیونکہ ...
8 جولائی 2015نیوز ایجنسی روئٹرز کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسی موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہو رہا ہے۔ روئٹرز کے مطابق اس سائنسی جائزے نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ فضا میں ماحول کے لیے ضرر رساں گیسوں کا اخراج اور سبز مکانی اثرات انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہیں۔
جرمن شہر پوٹسڈام میں قائم انسٹیٹیوٹ فار کلائمیٹ امپیکٹ کی ایک ریسرچ رپورٹ کے مرکزی محققہ ژاشا لیہمن کا اس بارے میں کہنا ہے،’’ ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے خطرات میں اضافے کے واضح اثرات نظر آ رہے ہیں‘‘۔ بارشوں کے بارے میں ایک تجزیاتی جائزے کے اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں جن سے پتہ چلا ہے کہ 1981 ء سے 2010 ء کے درمیان مختلف مقامات میں 12 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جن کے سبب مقامی ریکارڈز بھی ٹوٹ گئے۔
آب و ہوا کی تبدیلی کے بغیر بارشوں میں اس اضافے کی کوئی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ اس تجزیے میں سن 1900 سے اب تک کے ہزاروں موسمیاتی اسٹیشنز کے اعداد وشمار شامل کیے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق بارشوں میں اضافہ سب سے زیادہ جنوبی ایشیائی خطے میں ہوا ہے جس کی شرح 56 فیصد بنتی ہے جبکہ یورپ میں یہ شرح محض 31 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔
اس مطالعاتی جائزے میں کہا گیا ہے کہ 2010 ء میں اس لحاظ سے سب سے زیادہ ریکارڈز ٹوٹے ہیں۔ یہ سلسلہ امریکی ریاست ٹیکساس سے شروع ہو کر جنوبی ایشیائی ملک پاکستان تک پھیلا۔ 2010 ء میں پاکستان میں آنے والا سیلاب ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب تھا جو اپنے ساتھ دو ہزار سے زائد انسانوں کو اپنے ساتھ بہائے لے گیا۔
اس تجزیاتی جائزے کی رپورٹ کے ایک اور مصنف ڈِم کومو نےکہا ہے کہ 1980 ء تک موسلادھار بارشوں کا جو ریکارڈ ٹوٹا اُس کے بعد ایک اور لہر آئی جس میں مزید ریکارڈز ٹوٹے ہیں۔ اُن کا روئٹرز کو ایک بیان دیتے ہوئے کہنا تھا،’’ میں آئندہ دہائیوں میں ان ریکارڈز کے ٹوٹنے کے مزید اور کثیر واقعات کا اندازہ لگا رہا ہوں۔ اس کا دارومدار یقیناً اس امر پر ہوگا کہ ضرر رساں گیسوں کے اخراج اور سبز مکانی اثرات میں انسانوں کا کردار کس حد تک ہوتا ہے۔
جنوبی ایشیائی ملک پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا جڑواں شہر راولپنڈی اور صوبہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ سیلابی ریلوں کی زد میں ہے۔ منگل کو راولپنڈی میں مون سون کی پہلی بارش ہوئی۔ تیز بارش کے باعث تین گھنٹوں کے اندر نشیبی علاقے زیر آب آگئے اور نالوں میں طغیانی آگئی اور نکاسی کا راستہ نہ ملنے کے باعث بارش کا پانی گھروں میں داخل ہو گیا ۔117ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ نالوں کے کناروں پر موجود متعدد آبادیاں پانی میں ڈوب گئیں۔ 13 افراد ہلاک جبکہ ایک درجن سے زائد گھر گر گئے ہیں۔ کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے ، گاڑیاں پانی میں بہہ کر تباہ ہو گئیں ہیں۔ کئی مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ مقامی میڈیا کے مطابق نالہ لئی پر پانی شہر کے مختلف پلوں تک پہنچ گیا ہے۔ تین سو گھروں میں پانی داخل ہو گیا ہے۔ ہسپتالوں کے عملے ہائی الرٹ ہیں۔ کوئٹہ میں سیلابی ریلے میں بہہ کر کم از کم 2 افراد لقمہ اجل بنے ہیں۔