1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اب عرب دنیا بھی مریخ پر کمند ڈالنے کے لیے تیار

امجد علی6 مئی 2015

متحدہ عرب امارات کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ سن 2020ء میں مریخ پر ایک مشن بھیجا جائے گا، جو اس سیارے کی ’آب و ہوا‘ کا مشاہدہ کرے گا۔ عرب دنیا کے اپنی نوعیت کے اس پہلے مشن کو Hope یعنی امید کا نام دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FLC2
Der Planet Mars Aufnahme aus dem Weltraum
تصویر: imago/United Archives

نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس منصوبے پر کام کرنے والی ٹیم نے بدھ چھ مئی کو دبئی میں اس منصوبے کی مزید تفصیلات بتائیں۔ اس سے پہلے گزشتہ سال ہی دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم اس منصوبے کی ابتدائی تفصیلات منظرِ عام پر لائے تھے۔ عرب دنیا کے کسی بھی ملک کی جانب سے کی جانے والی یہ اپنی نوعیت کی پہلی کوشش ہو گی۔

چھ مئی کو دبئی میں ایک خصوصی تقریب منعقد کی گئی، جس میں مخصوص افراد کو ہی شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور جس میں حکام اس منصوبے کی مزید تفصیلات سامنے لے کر آئے۔ یہ تقریب ساحل کے قریب فانوسوں سے جگمگاتے ایک محل میں موسیقی کی گونج میں منعقد کی گئی۔ اس دوران ایک سینما اسکرین پر کمپیوٹر اینیمیشنز کی مدد سے منصوبے کی جزیات سے آگاہ کیا جاتا رہا۔

اس تقریب کے بعد شیخ محمد نے، جو امارات کے نائب صدر اور وزیر اعظم بھی ہیں، صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’مریخ کا یہ مشن درحقیقت عرب دنیا کے لیے ایک امید کی حیثیت رکھتا ہے اور عرب دنیا کو یہ پیغام دے گا کہ وہ چاہیں تو خود کو بہتر کر سکتے ہیں، اپنے اپنے ملک کو آگے لے کر جا سکتے ہیں۔‘‘

اماراتی سائنس دانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ایک چھوٹی سی کار کے سائز اور وزن کا حامل یہ مشن، جو کہ سرخ سیارے کی سطح پر لینڈ نہیں کرے گا، مریخ کے ماحول اور وہاں کی فضا کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے میں مدد دے گا۔ یہ مشن وقت کے ساتھ ساتھ مریخ کی فضا میں آنے والی تبدیلیوں کا ایک چارٹ تیار کرے گا اور اس بارے میں ڈیٹا جمع کرے گا کہ آتش فشاں پہاڑ، صحرا اور وادیاں اس کی فضا پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں۔

Deutschland Dubai VAE Premierminister Mohammed bin Rashid Al Maktoum in Berlin
دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم کے مطابق ’ہوپ‘ نامی یہ منصوبہ پوری عرب دنیا کے لیے ایک امید کی حیثیت رکھتا ہےتصویر: AP

یہ مشن 2020ء کے موسمِ گرما میں خلاء میں روانہ کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ اُسی دوران دبئی عالمی نمائش ’ورلڈ ایکسپو‘ کی میزبانی بھی کرے گا۔ یہ خلائی مشن ایک لاکھ چھبیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سات سے لے کر نو ماہ تک کے سفر کے بعد مریخ کے مدار میں پہنچ جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ تقریباً دو سو دنوں میں یہ غیر انسان بردار خلائی جہاز چھ سو ملین کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گا۔ انجینئرز امید کر رہے ہیں کہ یہ مشن کم از کم 2023ء تک مریخ کے مدار میں رہتے ہوئے اس سیارے کی فضا سے متعلق اعداد و شمار جمع کرے گا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس منصوبے پر پچھتر انجینئر کام کر رہے ہیں اور یہ کہ اس پر کام کرنے والے انجینیئرز کی تعداد 2020ء تک دگنی ہو جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس منصوبے پر کام کرنے والا تمام کا تمام عملہ اماراتی باشندوں پر مشتمل ہے۔ ایک ایسے خطّے میں یہ درحقیقت ایک انوکھی بات ہے، جہاں ہر چار میں سے تین سے بھی زیادہ باشندوں کا تعلق بیرونی دنیا سے گئے ہوئے مہمان کارکنوں یا دیگر غیر ملکیوں پر مشتمل ہے۔

اس منصوبے کی نائب خاتون پراجیکٹ مینیجر سارہ امیری کا کہنا تھا:’’یہ ایک اہم منصوبہ ہے، اُس پیغام کے باعث بھی، جو اس منصوبے سے مل رہا ہے ... اور وہ یہ کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کو ترقی دی جائے۔‘‘ اماراتی حکام کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ اس منصوبے پر لاگت کتنی آئے گی تاہم گزشسہ سال جولائی میں بتایا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے خلائی ٹیکنالوجیز پر بیس ارب درہم یعنی پانچ اعشاریہ چار ارب ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی جا چکی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید