اتحادیوں کے لیے ترقیاتی اسکیمیں، حکومت تنقید کی زد میں
7 ستمبر 2022معاشی ماہرین کی رائے میں حکومت کو پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کا یہ پیسہ سیلاب زدگان کی مدد اور سیلاب زدہ علاقوں کی تعمیر نو پر لگانا چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ اس مقصد کے لیے عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرض لے۔
ان اسکیموں سے تقریباﹰ 78 ارب روپے کا بوجھ قومی خزانے پڑے گا۔ ایک پاکستانی انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقیاتی اسکیموں کو نواب شاہ، سانگھڑ، جھل مگسی، چاغی، قلات، کوئٹہ، لکی مروت اور دیگر علاقوں میں مکمل کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت کا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام تقریباﹰ 700 ارب روپے سے زیادہ کا ہے جبکہ چاروں صوبوں اور وفاق کا پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کا مجموعی بجٹ تقریباﹰ 2200 ارب روپے کا بنتا ہے۔ پاکستان کو سیلاب اور بارشوں سے شدید تباہی کا سامنا ہے اور ایک اندازے کے مطابق ملک کو تقریباﹰ 10 بلین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے جبکہ چار ملین ایکڑ کے قریب زمین ان بارشوں اور سیلاب سے برباد ہو گئی ہے۔
پروگرام کا پیسہ تعمیر نو پر خرچ کیا جائے
معاشی امور کے ماہرین کے خیال میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مل کراس پروگرام کے بجٹ کو سیلاب زدہ علاقوں کی تعمیر نو اور سیلاب زدگان کی مدد اور معاونت کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان نے تعمیر نو اور سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بیرونی قرضہ لیا تو ملک مزید قرضوں کی دلدل میں پھنس جائے گا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اگر حکومت کو گرانٹس ملتی ہیں، تو وہ قابل قبول ہیں لیکن قرضہ لینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم 24 سے 32 فیصد سود ادا کریں گے۔ پاکستان پر پہلے ہی 115 ارب ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ ہے۔ ایسے میں یہ قرضہ اور اس کا سود ملک میں بہت بڑی معاشی تباہی کا سبب بنے گا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے اتحادیوں کو خوش کرنے کے بجائے پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام کو تعمیر نو پر لگائے۔‘‘
تاہم کراچی سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ ترقیاتی بجٹ پہلے ہی بہت کم ہے اور اس بجٹ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ترقیاتی بجٹ پہلے ہی کم ہے اس میں مزید کٹوتی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ترقیاتی بجٹ سے کسی حد تک عوامی نوعیت کے پراجیکٹس پایہ تکمیل تک پہنچتے ہیں۔‘‘
قیصر بنگالی کے مطاب اگر ہم پیسہ بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں پھر غیر پیداواری اور غیر ترقیاتی بجٹ سے پیسہ کم کرنا چاہیے اور اس کو سیلاب زدگان کی مدد یا مستقبل کی تعمیر نو کے لیے لگانا چاہیے۔
پروگرام کی اسکیمیں ضروری ہیں
حکمراں اتحاد کا کہنا ہے کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کا پیسہ سیلاب زدہ علاقوں کی تعمیر نو کے لیے لگا دیا جائے۔ جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے محمد جلال الدین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ سیلاب زدگان اور ان کی بحالی ضروری ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' لیکن پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ اسکیمیں اور ان کے پروگرام بھی اہمیت کے حامل ہیں۔ صوبائی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام سے پیسہ بالکل نہیں نکالا جا سکتا کیونکہ وہ صوبوں کا اپنا معاملہ ہے اور یہ صوبوں کے معاملات میں مداخلت ہو گی۔‘‘
محمد جلال الدین ایڈوکیٹ کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے: ''لیکن پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت بھی کام ضروری ہے۔ مثال کے طور پر لکی مروت میں پانی نہیں ہے۔ پانی کی ایسی سکیموں کے لیے پیسہ چاہیے اور وہ پیسہ اسی پروگرام سے آتا ہے۔‘‘