اجمل قصاب: غریب نوجوان ’قتل کرنے والی مشین‘ کیسے بنا؟
6 مئی 2010اسی ہفتے پیر کے روز اجمل قصاب کو باقاعدہ مجرم قرار دینے کے بعد آج جعمرات کو ممبئی کی ایک خصوصی عدالت کی طرف سے اس پاکستانی شہری کے لئے سزا کا اعلان کیا گیا، تو جج نے اسے اپنا موقف بیان کرنے کی دعوت بھی دی تاہم یہ مجرم پہلے خاموش رہا اور پھر اس نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔
نومبر 2008ء میں ممبئی میں بیک وقت کئی مقامات پر کئے گئے دہشت گردانہ حملوں کے واحد زندہ بچ رہنے والے ملزم کے طور پر اجمل قصاب کے خلاف مقدمے کی سماعت 13 مہینے تک جاری رہی، جس دوران اس نے مجموعی طور پر کئی غیر ملکیوں سمیت 166 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے ان حملوں میں اپنے ملوث ہونے کا اعتراف بھی کیا اور پھر بعد میں اپنے اس اعترافی بیان سے مکر بھی گیا۔
اجمل قصاب ان حملوں میں شامل کل دس مسلح عسکریت پسندوں میں سے ایک تھا، جس کے باقی تمام ساتھی ان حملوں میں مارے گئے تھے۔ اپنے خلاف عدالتی کارروائی کے دوران اس بائیس سالہ پاکستانی نوجوان نے کئی مرتبہ اپنے بیانات بدلے اور اس کا رویہ جذباتی زیر و بم سے بھی عبارت رہا۔
کبھی اس نے عدالت سے یہ درخواست کی کہ اسے فوری طور پر سزائے موت سنا کر اس پر عملدرآمد بھی کر دیا جائے، کبھی وہ لمبے عرصے تک خاموش رہتا اور کبھی یہ کہتا کہ آنے والے مہینوں اور سالوں کے دوران جہادی نوجوان اس کے کردار سے بہت متاثر ہوں گے۔
پاکستانی صوبہء پنجاب میں دیہی رہائشی پس منظر کا حامل ایک غریب نوجوان ممبئی حملوں میں ’انسانوں کو قتل کرنے والی مشین‘ کیسے بنا، اس بارے میں اس کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران جو تفصیلات سامنے آئیں، وہ اس کی شخصیت کی تبدیلی کی کافی حد تک وضاحت بھی کر دیتی ہیں۔
فرید کوٹ نامی گاؤں کا رہنے والا محمد اجمل امیر قصاب اپنے والدین کے کل پانچ بچوں میں سے تیسری اولاد ہے، جس نے غربت کی وجہ سے محض دس سال کی عمر میں سکول جانا ترک کر دیا تھا اور پھر ایک نوجوان کے طور پر وہ لاہور میں محنت مزدوری بھی کرنے لگا تھا۔ مختلف نوعیت کے معمولی جرائم کے ارتکاب سے پہلے تک اجمل کبھی کبھی اپنے والد کی مدد بھی کیا کرتا تھا، جو کھانے پینے کی اشیاء بیچتے تھے۔
اس مجرم کے بارے میں بھارتی عدالت کا اس کے اپنے ہی بیانات پر مبنی ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ 2007ء میں جب اجمل قصاب لاہور سے راولپنڈی منتقل ہوا، تو اس کا رابطہ ممنوعہ شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کے ارکان سے ہوا۔ پھر ایک سال تک اجمل قصاب نے اس جہادی تنظیم کے مختلف کیمپوں میں جسمانی اور عسکری تربیت حاصل کی، جس دوران اسے جدید ہتھیاروں کا استعمال بھی سکھایا گیا۔
اجمل قصاب نے اپنے خلاف سماعت کے دوران ممبئی کی ایک خصوصی عدالت کو یہ بھی بتایا تھا کہ اس کی اور اس کے ساتھیوں کی عسکری تربیت اس طرح کی گئی تھی کہ انہیں ممبئی حملوں میں ’ہر حال میں شہید‘ ہونا ہی تھا کیونکہ انہیں یہ کہا گیا تھا کہ وہ ’’تب تک قتل کرتے جائیں، جب تک وہ خود بھی نہ مارے جائیں۔‘‘
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: امجد علی