احتجاج ختم، پاکستان بھر میں زندگی معمول پر آنے لگی
3 نومبر 2018مختلف پاکستانی شہروں میں توہین مذہب کے مقدمے میں بریت حاصل کرنے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کے حوالے سے شروع ہونے والے مظاہرے اختتام پذیر ہو گئے ہیں۔ مظاہرے ختم ہونے کی وجہ مذہبی رہنماؤں کی حکومت کے ساتھ ایک ڈیل ہے۔ اس معاہدے کے تحت آسیہ بی بی کو پاکستان چھوڑنے کی اجازت اُس وقت تک نہیں ہو گی جب تک سپریم کورٹ نظرثانی اپیل کی سماعت مکمل نہیں کرتی۔ مظاہرے شروع کرنے والی مرکزی جماعت تحریک لبیک پارٹی کے مظاہرین منتشر ہو گئے ہیں۔ حکومت کی نمائندگی مذہبی امور کے وزیر نور الحق قادری نے کی۔
اس ڈیل کے بعد صوبائی حکومتوں نے کھڑی رکاوٹیں ہٹانا شروع کر دی ہیں جبکہ کاروبار زندگی دوبارہ معمول پر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے پاکستان کے دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں بھی ٹریفک رواں دواں ہے اور لوگ سڑکوں پر نکلنا شروع ہو گئے ہیں۔
دریں اثناء تحریک لبیک کے برعکس پاکستان کی ایک دوسری مذہبی اور سیاسی پارٹی جماعت اسلامی (جے آئی) نے پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ جماعت اسلامی نے اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کراچی سے چترال تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
دوسری جانب پاکستان کی نیشنل ہاویز اور موٹروے بھی کھول دی گئی ہے۔ موٹروے پولیس نے اعلان کیا ہے کہ سڑکیں تمام قسم کی ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہیں لیکن ساتھ ہی مختلف راستوں پر ’غیر متوقع اور غیر مستحکم حالات‘ کے حوالے سے خبرادر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ غیر ضروری سفر سے اجتناب کیا جائے۔
دریں اثناء پاکستانی سکیورٹی ادارے جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کی نماز جنازہ کے حوالے سے بھی سکیورٹی خصوصی اقدامات کر رہے ہیں۔ انہیں گزشتہ روز راولپنڈی میں ان کے گھر پر چاقوؤں کے وار کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا تھا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ ان کی نماز جنازہ میں بڑی تعداد میں لوگ شرکت کریں گے۔ یاسی سالہ مولانا سمیع الحق جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے سربراہ بھی تھے۔
ا ا / ع ح ( نیوز ایجنسیاں)