احسان اللہ احسان کس کے ’احسان‘ سے فرار ہوا؟
7 فروری 2020احسان اللہ احسان کے فرار پر اسٹیبلشمنٹ کو ہدف تنقید بنانے والوں میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ بھی شامل ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس فرار نے ایک نہیں بلکہ کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں، ''ہمیں اس فرار پر بہت تشویش ہے اور سوال یہ ہے کہ وہ اتنے ہائی سکیورٹی زون سے کیسے فرار ہوا ؟ ساری جماعتوں کے مطالبے کے باوجود احسان اللہ احسان پر مقدمہ چلا کر اسے سزا کیوں نہیں دی گئی؟ اس مسئلے پر خاموشی کیوں ہے؟ کیا خطے میں کوئی نیا گیم ہونے جارہا ہے؟ ہماری پارٹی اس مسئلے پر اجلاس بلائے گی اور فیصلہ کرے گی کہ اسے پارلیمنٹ میں اٹھایا جائے یا نہیں؟
واضح رہے کہ اس خبر کو سب سے پہلے ایک بھارتی اخبار نے بریک کیا تھا لیکن پاکستان میں اس کا زیادہ نوٹس نہیں لیا گیا۔ اب جب کہ احسان اللہ احسان کی آڈیو سامنے آ گئی ہے، تو اس پر سوشل میڈیا پر خوب تبصرے ہورہے ہیں۔ تاہم پاکستان کا آزاد میڈیا، خصوصاً چینلز، اس پر تبصرے سے اجتناب کر رہے ہیں۔ لوگوں کو آئی ایس پی آر کی خاموشی پر بھی تعجب ہے۔
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب سے جب ڈی ڈبلیو نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا،''مجھے بھی میڈیا کے ذریعے ہی پتہ چلا ہے، لہذا اس پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔ تاہم میں یہ ضرور کہوں گا کہ اگر یہ خبر سچی ہے تو بھی حکومت کی طرف سے بیان آنا چاہیے اور اگر غلط ہے تو اس کی تردید آنا چاہیے تاکہ ملک میں جو چہ مگوئیاں ہورہی ہیں، وہ بند ہو سکیں۔‘‘
عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رہنما و ایم این اے بشری گوہر کے خیال میں اس کا فرار نا اہلی کی بد ترین مثال ہے، ''یہ فرار سکیورٹی اداروں کی ملی بھگت اور اس اسٹیٹ پالیسی کا عکاس ہے، جس کے تحت ہم آج بھی اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے فلسفے کی پیروی کر رہے ہیں اور طالبان دہشت گردوں کو دفاعی اور خارجہ پالیسی کے معاملات میں آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ‘‘
بشری گوہر نے بھی اس فرار پر کئی سوالات بھی اٹھائے،’’اتنے سارے معصوم انسانوں کے قاتل پر مقدمہ کیوں نہیں چلایا گیا؟ اسے ریاست کے مہمان خانے میں کیوں رکھا گیا تھا؟ کس نے اس کی فرار میں مدد کی ہے؟ اس کے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھا گیا جیسا کہ وہ اسٹریٹیجک اثاثہ ہو؟ آئی ایس پی آر، کٹھ پتلی حکومت، میڈیا اور سیاست دان اس پرخاموش کیوں ہیں؟ میرے خیال میں اندرونی مدد کے بغیر وہ بھاگ نہیں سکتا تھا۔‘‘
پاکستان میں اس سے پہلے بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں، جہاں طالبان قیدی بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ کئی ناقدین یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس طرح کے واقعات کے بعد بھی حکومت نے مناسب اقدامات کیوں نہیں کیے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر سید عالم محسود نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پہلے بنوں جیل کو توڑا گیا، کراچی جیل سے بھی قیدی بھاگے اور اب تو ایک نامی گرامی دہشت گرد، جس کے ہاتھ پر ہزاروں بے گناہ انسانوں کا خون ہے، وہ جی ایچ کیو کی حراست سے بھاگ گیا۔ مجھے ڈر ہے کہ خطے اور پختون علاقوں میں کوئی بڑا گیم ہونے والا ہے، جس میں ایک بار پھر تباہی ہمارے علاقوں کی ہو گی۔‘‘
احسان اللہ احسان ہے کون؟
احسان اللہ احسان کا اصل نام لیاقت علی ہے اور ان کا تعلق پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقے مہمند سے ہے، جو پاکستان کی سات قبائلی ایجنسیوں میں سے ایک تھی۔ اب یہ علاقہ خیبر پختونخواہ میں ضم ہو چکا ہے اور اسے ضلع کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ احسان اللہ احسان کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے تھا اور وہ کافی عرصے تک اس کے ترجمان بھی رہا۔ اس نے ترجمان کی حیثیت سے کئی طالبان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ بعد ازاں ٹی ٹی پی میں تقسیم کے بعد وہ جماعت احرار کے ترجمان بن گئے اور اس دہشت گرد تنظیم کے بھی کئی اہم حملوں کی ذمہ داری احسان اللہ احسان نے قبول کی۔ اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ماضی میں صحافت سے بھی وابستہ رہا ہے اور اسے شاعری کا بھی شوق رہا۔
ٹی ٹی پی، پنجابی طالبان اور سپاہ صحابہ
احسان اللہ احسان کو پنجابی طالبان کے سربراہ عصمت اللہ معاویہ کا قریبی دوست سمجھا جاتا ہے۔ معاویہ کے بارے میں خیال کیا جاتا کہ وہ ماضی میں کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان اور کالعدم جہادی تنظیم جیش محمد کا حصہ رہا ہے۔ سپاہ صحابہ کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ کبھی بھی ان کی تنظیم کا حصہ نہیں رہا۔ عصمت اللہ معاویہ نے دوہزار چودہ میں ٹی ٹی پی چھوڑ دی تھی اور سکیورٹی اداروں کے آگے ہتھیار ڈال دیے تھے اور ایک آڈیو پیغام میں کہا تھا کہ وہ اب ترویج دین کے لیے کام کرے گا اور افغانستان میں نیٹو کی فوج کے خلاف جہاد کرے گا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ معاویہ نے احسان اللہ احسان اور سکیورٹی اداروں کے درمیان رابطہ کرایا، جس کے بعد احسان اللہ احسان نے اپریل دوہزار سترہ میں ہتھیار ڈال دیے اور ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا کہ ٹی ٹی پی غیر ملکی ایجنسیوں کے لیے کام کر رہی تھی۔