1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

احمدی برادری کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرے؟

9 نومبر 2020

پشاور میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک اور شخص کو نشانہ بنا کر قتل کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں یہ تیسرا اندھا قتل ہے، جو اس برادری سے تعلق رکھنے والے شخص کا ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/3l3Aw
Urdu Bloger Shozab Askari
تصویر: privat

ریاستی سطح پہ ایسے واقعات کی کم ہی مذمت کی جاتی ہے۔ سماجی سطح پہ ہماری مجرمانہ خاموشی سے بھی اس درندگی کو شہ مل رہی ہے۔ نجانے ایسے معاشروں کا کیا ہوتا ہو گا، جہاں کسی ناحق قتل کی مذمت کرنے کے لیے بھی بیسیوں بار سوچنا پڑے۔

میری یادداشت اور معلومات کے خانوں میں حالیہ جدید تاریخ سے ایک ہی ملک کی ایسی مثال ملتی ہے، جہاں مذہبی نفرت اور سماجی تقسیم نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لوگ جھوٹ اور سازشوں پہ اندھا یقین کرنے لگے اور بالآخر دوسری جنگ ِ عظیم کے شعلے بھڑک اٹھے۔ چونکہ ہمارے ممدوح وزیراعظم اس نازی جرمنی سے بخوبی واقف ہیں لہذا وہ ہمسایہ قیادت پہ ہمہ وقت نازی ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔

 ہمسایہ ملک کی قیادت نازی ہو یا فاشسٹ، وہاں کی سول سوسائٹی اور سیاسی اپوزیشن اپنے ملک کے حالات اور بدلتے ہوئے سماجی رویے سے ناواقف نظر نہیں آتی کیونکہ مودی حکومت کا ہر وہ اقدام، جس میں بھارتی جمہوریت یا سیکولر روایت کو ضرب لگی، اس کی مذمت سب سے پہلے خود وہاں کے داخلی سماج سے ہوئی۔ وہ بھارت کی اپوزیشن سیاسی جماعتیں ہوں، سول سوسائٹی ہو، مسلم اقلیت ہو یا وہاں کا لبرل پروگریسو دانشور حلقہ، سب کے سب مودی حکومت کے اقدامات کی سرگرم مخالفت میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:

بھارت میں خواتین پر مظالم: نچلی ذات والوں اور مسلمانوں کے ليے انصاف کے پیمانے مختلف

 

حال سرحد کے اِس پار اپنا بھی مودی سرکار سے جُدا نہیں ہے مگر کیا ہمارا داخلی سماج ضمیر کی خدائی آواز پہ کان دھرتے ہوئے آئے روز ہونے والے ناحق قتلوں، امتیازی سماجی رویوں اور اقلیتی برادریوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مسلسل تکلیف دہ برتاؤ پہ کبھی یک زبان ہوکر یہ بولا ہے کہ یہ ظلم ہے اور اس کے خلاف قرار واقعی اقدامات کیے جانے چاہئیں؟

چلئے دور نہیں جاتے گزشتہ روز پشاور میں قتل ہونے والے احمدی شہری پچھہتر سالہ محبوب احمد  کا قتل ہی لے لیجیے۔ کیا کوئی مذمتی بیان صوبائی یا مرکزی قیادت کی جانب سے سامنے آیا ؟ نہیں، پانچ اکتوبر کو قتل ہونے والے احمدی پروفیسر ڈاکٹر نعیم الدین احمد کے قتل پہ ہماری زبانیں نوحہ کناں ہوئیں؟ کیا ملکی قیادت نے محض لفظی ہی سہی، اس قتل کی مذمت کی؟ نہیں، تو کیا 13 اگست کو میڈیکل اسٹور  کے مالک معراج احمد کے قتل کے مذمت ہوئی؟ ہرگز نہیں۔

احمدی برادری کے افراد کو ٹارگٹ بنا کر قتل کرنے اور سماجی و معاشرتی سطح پر امتیازی و نفرت انگیز رویوں کی تاریخ نئی نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے اپنے آبائی شہر کے مرکزی چوک میں سڑک کے عین بیچوں بیچ احمدی برادری کے مذہبی پیشوا کا نام ایک ایسے جانور نام کے ساتھ درج تھا، جسے ہم گالی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

 ملک بھر کے بڑے شہر وں کی بیسیوں دکانوں کے داخلی دروازوں پہ  یہ پوسٹر چسپاں دیکھے ہیں کہ اس دکان میں احمدیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ احمدی مخالف جذبات میں چند سال پہلے سے ہمارے شہر میں ایک نئی روایت نے جنم لیا۔ جس روز ایک مشہور مذہبی جماعت کا سالانہ جلسہ ہوتا، اگلے روز شہر کے مشہور احمدی تاجروں، ڈاکٹروں، وکیلوں غرض یہ کہ ہر شعبہ ء حیات میں ایسے نامور لوگ، جو عقیدے کے لحاظ سے احمدی ہیں، کے نام درج ہوتے  ہیں اور  یہ فہرست پڑھنے والوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ان لوگوں سے کوئی لین دین یا رابطہ نہ رکھیں۔

 کچھ سال پہلے  ہمارے ایک عزیز ڈاکٹر صاحب کا نام بھی اس فہرست میں اس لیے شامل کر لیا گیا کہ ان کے نام کے ساتھ احمد آتا ہے۔  لہذا فہرست بنانے والے نے زیادہ تحقیق کی کوشش نہیں کی اور یوں وہ ڈاکٹر صاحب کئی سال تک اپنی جان اور کاروبار کے تحفظ کے لیے یہ گواہی دیتے رہے کہ وہ اللہ کا شکر ہے، مسلمان ہیں۔

یہ سب کیا ہے؟ کیا کسی مہذب معاشرے یا ریاست میں عقیدے کے اختلاف کی بنیاد پر ایسے نفرت انگیز امتیازی رویے کی گنجائش موجود ہے؟ کیا اسلاموفوبیا یا سامیت دشمنی کے ناقدین دوست اپنے گھر اور گریبان میں بھی جھانکیں گے؟ کیا یورپ اور امریکا سے تقاضا کرنے سے پہلے اپنے گھر کو سب کا سانجھا گھر بنانے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا پاکستان کے سب شہری بحیثیت شہری برابر نہیں ہیں؟ کیا سبھی کی جان و مال عزت و آبرو اور عبادت اور عقیدے کا حق ہمارے آئین نے نہیں دیا؟

پشاور شہر میں دو مہینے پہلے ملک کی ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت کی ملک گیر قیادت نے اپنی سیاسی ریلی میں احمدی برادری کو نام لے کر پاکستان دشمن کہا اور اس برادری سے تعلق رکھنے والے مقتولین کے مبینہ قاتلوں کی  تعریفوں کے پل باندھے۔ قابل صد افسوس امر یہ ہے کہ  اس وقت ملک  میں اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کے  اجتماع کی قیادت مولانا موصوف کے پاس ہے، جو اپنی جماعت  کی سیاسی ریلیوں اور جلسوں میں  عوام کو دعوت دینے کے لیے عموماﹰ احمدی مذہبی اقلیت کی مخالفت  کا نعرہ لگاتے ہیں۔

 پہلے پہل تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پاکستان میں تمام اقسام کی مذہبی سیاسی جماعتوں کو  عوامی مقبولیت کے لیے احمدی مخالف جذبات کا اظہار  کرنا ہوتا تھا مگر اب شاید ایسا لگتا ہے کہ ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں اس مختصر مذہبی اقلیت کے وجود کے خاتمے کے لیے اگرچہ عملی طور پر نہ سہی تاہم معنوی کوششوں میں ضرور شامل ہوچکی ہیں۔

عقیدے کے اختلاف پر نفرت کا دریا اگر کسی ایک بند کے لگا دینے سے رُکا کرتا تو پاکستان کے آئین میں احمدیوں کو اسلام سے خارج قرار دے دینے کے بعد یہ بحث ختم ہو چکی ہوتی اور انہیں بھی صرف اتنی ہی تکالیف سہنا پڑتیں، جس قدر دیگر مذہبی اقلیتوں کو درپیش ہیں۔ اور جہاں تک سوال یہ اس رائے کا ہے کہ چونکہ احمدی  آئین ِ پاکستان کا اس طرح احترام نہیں کرتےکہ  اپنے آپ کو پاکستانی آئین کے مطابق مذہبی اقلیت سمجھیں لہذا انہیں زک پہنچانا جائز ہے تو یاد رکھیے گا کہ اس رائے کے ساتھ آپ بھی ریاست پاکستان کے آئین اور قانون کے منکر ہیں، جو سبز شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے حامل ہر شہری کی جان و مال عزت و آبرو  کی سلامتی اور فراہم کردہ مذہبی آزادیوں کا ضامن ہے۔