پاکستان میں بلا سود قرضوں کی مؤثرغیر سرکاری کوشش
26 مارچ 2011سن 2001 میں قائم کیا جانے والا یہ ادارہ اپنے 54 دفاتر اور 400 ملازمین کے ساتھ ملک کے 30 شہروں میں غربت کے خاتمے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے۔ غربت کے خاتمے کے لیے اپنائے گئے اخوت کے ماڈل کو دنیا کی کئی یونیورسٹیوں میں ایک مثالی نمونے کے طور پر پڑھایا جا رہا ہے۔
دس سال پہلے دس ہزار روپے کی معمولی رقم سے شروع کیا جانے والا یہ ادارہ آج کل ایک ارب روپے سے زائد کی رقوم غریب لوگوں کو بلا سود قرضوں کے طور پر فراہم کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ساری رقوم پاکستان کے مخیر لوگوں نے فراہم کر رکھی ہیں۔ پاکستان کے نوے ہزار سے زائد گھرانے اخوت کے قرضوں سے مستفید ہو چکے ہیں۔
یہ قرضے سائل کو کسی لمبے چوڑے تفتیشی مرحلے سے گزرے بغیر سادہ کاغذ پر تحریر کی ہوئی درخواست پر شخصی ضمانت کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے اخوت کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ غربت کا خاتمہ اکیلے کسی حکومت یا کسی ایک ادارے کے بس کی بات نہیں ہے۔
اس لیے سول سوسائٹی ، مخیر اداروں اور پرائیویٹ سیکٹر سمیت سب کو غربت کے خاتمے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بتایا کہ آج کل سیلاب سے متاثرہ علاقے ان کی توجہ کا مرکز ہیں۔ یاد رہے کہ سیلاب سے متاثرہ ضلع راجن پور میں اخوت بلا سود قرضوں کی فراہمی کے ذریعے دس ہزار گھرانوں کی معاشی بحالی کے ایک منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
ان کے مطابق لوگوں کو بھکاری بنانے سے بہتر ہے کہ انہیں عزت اور وقار کے ساتھ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جائے۔ اخوت کو خواجہ رفیق فاؤنڈیشن اور عمران خان فاؤنڈیشن سمیت کئی فلاحی اداروں کا تعاون بھی حاصل ہے۔
اگرچہ ڈاکٹر امجد ثاقب غربت کے خاتمے کے لیے بنگلہ دیش کے گرامین بینک کی خدمات کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ اخوت کی مائیکرو فنانسنگ کا ماڈل گرامین بینک سے مختلف ہے۔ ’’ہم عورتوں کے ساتھ ساتھ غریب مردوں کو بھی قرضے دیتے ہیں، ہم سود نہیں لیتے اور ہمارے انتظامی اخراجات نہایت کم ہیں۔‘‘
ڈاکٹر امجد ثاقب غربت کے خاتمے کے لیے اخوت کے ماڈل کو دنیا کے دیگر پسماندہ ملکوں تک وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں جو کوئی بھی اخوت کی طرح غریبوں کی مدد کرنا چاہے تو وہ اسے بلا معاوضہ تربیتی خدمات پیش کرنے کو تیار ہیں۔ اخوت کے ایک ڈائریکٹر ہمایوں احسان کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ پاکستان کے بااثر طبقات سے تعلق رکھنے والے بعض لوگ سرکاری قرضے معاف کرواتے اور ٹیکس ادا نہیں کرتے رہے ہیں۔ ان کے بقول ملک کے بعض مراعات یافتہ طبقوں کی یہ غلط روایات عام پاکستانیوں تک ابھی نہیں پہنچیں۔
ان کے مطابق اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اخوت سے قرضہ لینے والے پاکستانی 99.98 فیصد قرضے واپس کر رہے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان میں امداد دینے والے اور لی ہوئی امداد واپس کرنے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ اگر حکومتی ادارے بھی اخوت جیسی کریڈیبیلٹی اپنا لیں تو غیروں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے بچا جا سکتا ہے۔