ایک خود علاجی کے ماہر شخص نے اگر کوئی گولی آپ کو تجویز کی تو دوسرا فوراً تردید کرتے ہوئے کہے گا کہ ’’نہیں نہیں بلکہ تم یہ والی چھوڑو، میں دوسری دوا بتاتا ہوں۔ یہ دوا کھاؤ اس سے زیادہ جلدی درد ختم ہو گا۔‘‘
اور ایسے ذہین فطین لوگ بھی موجود ہیں جو کہ دونوں تجویز کردہ دوائیں بیک وقت کھا لیں گے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ شاید یہ دوا نہیں بلکہ کوئی صحت بخش غذا تجویز کی گئی ہے۔ ایک تقریب میں میزبان سے سلام دعا کے بعد ان کے چہرے سے اندازہ ہوا کہ شاید بخار کی کیفیت ہے۔ ہم نے پوچھا کہآپ کی طبیعت کچھ خراب لگ رہی ہے۔ ڈاکٹر کے پاس گئیں آپ؟ فرمانے لگیں نہیں تین چار مختلف طرح کی گولیاں نگل لیں ہیں کوئی ایک تو ضرور اپنا اثر دکھائے گی اور تھوڑی دیر میں طبیعت بہتر ہو جائے گی۔
ایسے نادان لوگ نہ صرف اپنی صحت کے دشمن ہوتے ہیں بلکہ اپنے اردگرد والوں کی صحت کی بھی در پے ہوتے ہیں۔ اور جب یہ خود سے لی گئی ادویات جسم کے اندر موجود نظام کو درہم برہم کر کے موت کو دعوت دے دیتی ہیں تو لوگ تبصرے کرتے ہیں کہ ’’ارے ابھی تو بھلی چنگی تھیں۔ اچانک ہی چل بسیں۔‘‘
ساری زندگی غلط ملط دوائیں کھانا کسی کی نظر میں کوئی اہم بات نہیں۔
اسی طرح کی ایک اور محترمہ میرے بچپن کی دوست ماریہ کی والدہ ہیں۔ ہم عرصہ دراز سے انہیں مختلف ڈاکٹروں سے علاج کے لیے چکر لگاتے دیکھ رہے ہیں۔ ادویات کا خرچہ راشن کے بجٹ سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔ مختلف اقسام کے ٹیسٹ کروانا گویا کہ ان کا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔
لیکن آج تک کوئی مرض تشخیص نا ہو سکا۔ بھوک نہیں لگتی، نیند نہیں آتی۔ برسوں سے نیند کی گولیاں ٹافیوں کی طرح پھانکتی رہتی ہیں۔ کسی طرح کی غذا سے کوئی الرجی نہیں۔ اس کے باوجود ہر دوسرے دن ہسپتال میں لیٹی درد دور کرنے کی ادویات پر مشتمل ڈرپ سے لطف اندوز ہو رہی ہوتی ہیں اور اس کے بعد نیم بے ہوشی کی حالت میں انہیں گھر لایا جاتا ہے۔ کیونکہ درد کش ادویات میں مریض کو سکون پہنچانے کے لیے غنودگی کے اثرات بھی ہوتے ہیں۔ ایک طویل نیند کے بعد وہ مطمئن ہو کر جاگتی ہیں۔
اس سارے منظر میں اہم بات یہ ہے کہ جس دن گھر میں کوئی خلاف مزاج بات ہو جائے، اس دن انہیں ضرور درد اٹھتا ہے۔ گھر والے دوڑے دوڑے ہاسپٹل لے کر جاتے ہیں، جہاں انہیں درد دور کرنے کے لیے ڈرپ لگائی جاتی ہے۔
ہم سب ایسے بے شمار لوگوں سے واقف ہوں گے، جن کی صبح بھی ادویات سے ہوتی ہے اور دن کے اختتام پر بھی انہیں مٹھی بھر گولیاں پھانکنے کے بعد ہی سکون آتا ہے۔ دواؤں کے منفی اثرات سے بے خبر ہم سب کے گھروں میں نیلی، پیلی، پتلی، موٹی ہر سائز کی گولیاں دستیاب ہوتی ہیں گویا کہ ایک منی میڈیکل اسٹور ہو۔
حتیٰ کہ پرچون کی دکان پر ٹافیوں کی طرح درد کش ادویات دستیاب ہوتی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اکثر لوگ ان ادویات کے نشے میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اگر ڈاکٹر مریض کو کوئی درد کش ادویات تجویز کرتے ہیں تو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مریض کی صحت کی حالت کے مطابق دوا کی مقدار اور معیاد تجویز کی جائے۔
مگر جناب ہم میں سے اکثریت کا طریقہ کار پھر یہ ہوتا ہے کہ ہم اس ڈاکٹری نسخے کو دل سے لگا کر نسل در نسل استعمال کرتے چلے جاتے ہیں اور اپنے ارد گرد موجود تمام لوگوں کو، خاندان کے تمام چھوٹے بڑے افراد کو یہی نسخہ تجویز کرتے رہتے ہیں۔
ان ادویات کے مضر اثرات سے واقف ہوئے بغیر ان کا استعمال نہ صرف ہمارے جسم بلکہ ہماری دماغی صحت کو بھی شدید نقصان پہنچا تا ہے۔ بلکہ کچھ ادویات تو ایسی ہیں، جو نشے کی طرح ہمیں اپنا عادی بنا لیتی ہیں اور پھر ہم چاہتے ہوئے بھی وہ ادویات چھوڑ نہیں سکتے۔ حد تو یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو بھی اکثر مائیں دو چمچ کھانسی کا شربت صرف اس وجہ سے پلا دیتی ہیں کہ کھانسی کے شربت میں غنودگی کے اثرات ہوتے ہیں اور بچہ تنگ کر رہا ہے تو یہ شربت پی کر سکون سے سو جائے گا۔
شاید آپ کو یہ بات جان کر حیرانی ہو کہ پاکستان میں نوے لاکھ سے زیادہ افراد کسی نہ کسی نشے میں مبتلا ہیں اور ان میں سے تقریبا سات سو افراد روزانہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ جاننا مشکل ہے کہ 90 لاکھ میں سے کتنے افراد ادویات کے غلط استعمال میں مبتلا ہیں۔ لیکن آپ اپنے اردگرد نگاہ دوڑائیں تو آپ کو اپنے خاندان میں ہی بے شمار مثالیں مل جائیں گی کہ جو لوگ مختلف ادویات ٹافیوں کی طرح استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔
یورپین جنرل آف نیچرل اینڈ سوشل سائنسز کے آرٹیکل کے مطابق پاکستان میں اکیاون فیصد (%51) افراد کو ان کے دوست احباب نے ان کو ادویات کے نشے پر لگایا۔ جبکہ 15 فیصد کا کہنا تھا کہ ان کے گھر میں پہلے سے کوئی نہ کوئی فرد ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا کا استعمال کر رہا تھا، جس کی دیکھا دیکھی انہوں نے بھی ان ادویات کو استعمال کرنا شروع کر دیا۔
اس آرٹیکل کے مطابق 56 فیصد افراد نے یہ تسلیم کیا کہ ان ادویات کی عادت نے ان کی گھریلو زندگی برباد کر دی ہے۔
اس حوالے سے TEDx پر ٹریوس رائیڈر نامی شخص کا ایک لیکچر نظر سے گزرا، جن کی ایک ایکسیڈنٹ میں ٹانگ ٹوٹ گئی تھی اور ڈاکٹر نے ان کو کچھ ایسی ادویات تجویز کیں، جن میں افیون کی بھی کچھ مقدار شامل تھی۔
لہذا وہ ان ادویات کے عادی ہو گئے۔ ٹریوس کے بقول جب انہیں ان ادویات کو ترک کرنے کے لیے کہا گیا تو انہیں شدید جسمانی اور ذہنی تکلیف برداشت کرنا پڑی۔ یہاں تک کہ انہوں نے خودکشی کرنے کے بارے میں بھی سوچا۔ نا بھوک لگتی تھی اور نا نیند آتی تھی۔ اپنے جذبات پر سے کنٹرول بالکل ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے ماریہ کی والدہ کے ساتھ ہو رہا ہے۔
کچھ لوگ یہاں پر یہ نکتہ اٹھائیں گے کہ ہر کوئی تو اس طرح سے ادویات کا عادی نہیں ہو جاتا۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن ہر شخص کی قوت برداشت اور ذہنی صحت ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ہمیں زندگی میں بہت سے اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ بسا اوقات لوگ زندگی کے ان چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور ادویات کا سہارا لیتے ہیں۔
اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوا کی مقدار اور اوقات کار کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ لہذا ان کے جسم میں نشہ آور کیمیکل کی برداشت بڑھ جاتی ہے اور وہ بتدریج اس دوا کی خوراک اور مقدار بڑھانا شروع کر دیتے ہیں اور پھر جب وہ اس دوا کے عادی ہو جاتے ہیں تو پھر ان کا یہ نشہ چھڑوانا دشوار ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ہی تمام ادویات بآسانی دستیاب ہوتی ہیں بلکہ اب تو آن لائن سروس میں مزید سہولت حاصل ہو گئی ہے کہ آپ گھر بیٹھے با آسانی دوا منگوا سکتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ یہ تمام دوائیں مضراثرات کی بھی حامل ہوتی ہیں۔ اور ہر شخص کی جسمانی کیفیت، عمر اور وزن کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر کی جانب سے تجویز کی جائیں تو ان مضراثرات سے بچا جا سکتا ہے بصورت دیگر ان کا بے جا استعمال آپ کے گردوں پھیپڑوں اور معدے کے ساتھ ساتھ آپ کی ذہنی صحت کو بھی شدید نقصان پہنچا تا ہے۔ آپ کی زندگی اور صحت ایک امانت ہے جس کا خیال رکھنا آپ پر فرض ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔