1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اردن، اب زیادہ شامی مہاجر بچے اسکول جا سکیں گے

عاطف بلوچ23 اگست 2016

اردن نے شامی مہاجر بچوں کی تعلیم تک رسائی کو ممکن بنانے کے لیے اہم اقدامات اٹھائیں ہیں، جن کی ہیومن رائٹس واچ نے تعریف کی ہے۔ اب آئندہ تعلیمی سال زیادہ شامی مہاجر بچے اسکول جا سکیں گے۔

https://p.dw.com/p/1JnRa
Welternährungsprogramm WFP Nahrung für Flüchtlinge
تصویر: WFP/Dina Elkassaby

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اردن کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسکولوں کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ وہ شامی مہاجر بچوں کے اسکولوں میں داخلے کو ممکن بنانے کے لیے فوری اقدامات اٹھائیں۔

حکومتی ترجمان محمد مومنی بتایا ہے کہ ستمبر سے قبل اردن میں ایسے پناہ گزین شامی بچے بھی اسکولوں میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، جن کی ضروری کاغذی کارروائی مکمل نہیں ہے۔

مومنی نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ تعلیمی سال یعنی ستمبر سے قبل شامی بچوں کو اسکولوں میں داخلے کے حوالے سے درپیش مشکلات کو دور کر لیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس پیشرفت کو ایک بڑٰی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اردن کی حکومت کی طرف سے ان اقدامات کے نتیجے میں ہزاروں مہاجر بچے تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

مومنی نے مزید کہا کہ 102 سرکاری اسکولوں میں ڈبل شفٹس شروع کی جا رہی ہیں، جس کی وجہ سے پچاس ہزار شامی بچے اسکول میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ بائیس اگست بروز پیر اردن نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ آٹھ تا بارہ سال کی عمر کے پچیس ہزار ایسے مہاجر بچوں کے لیے خصوصی کلاسز کا اہتمام بھی کیا جائے گا، جو گزشتہ تین یا اس سے زائد برسوں سے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔

شامی مہاجر بچوں کے لیے ان تعلیمی منصوبہ جات کے لیے امریکا، برطانیہ، ناروے اور سوئٹزرلینڈ نے سو ملین یورو کا ایک فنڈ بنایا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ محقق بل فان ایسویلڈ نے ان منصوبہ جات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اردن کی وزارت تعلیم کی طرف سے ایسے شامی مہاجر بچوں کو اسکول میں داخلہ فراہم کرنا اہم پیشرفت ہے، جن کے پاس مطلوبہ دستاویزات نہیں ہیں۔‘‘

قبل ازیں ہیومن رائٹس واچ نے اردن پر زور دیا تھا کہ وہ مہاجر بچوں کی اسکولوں تک رسائی ممکن بنانے کے لیے اپنے ملکی قواعد وضوابط میں تبدیلی لائے۔ پرانے قوانین کے مطابق ایسے مہاجر بچوں کو اسکول میں جگہ نہیں مل سکتی تھی، جو تین برس یا اس سے زائد عرصے سے کسی اسکول میں رجسٹر نہیں تھے۔

Jordanien Irbid Schülerinnen in blauen Uniformen essen Brot
آئندہ تعلیمی سال زیادہ شامی مہاجر بچے اسکول جا سکیں گےتصویر: Reuters/M. Hamed
Schulunterricht für syrische Kinder
اسّی ہزار شامی مہاجر بچے گزشتہ برس اسکول میں داخلہ نہیں لے سکے تھےتصویر: picture alliance / dpa
Flüchtling Camp Lager Kind Schule Unterricht lachen Al Zaatri Jordanien
اردن میں دو لاکھ چھبیس ہزار ایسے شامی بچے رجسٹر ہیں، جن کی عمریں اسکول جانے والی ہیںتصویر: Reuters

علاوہ ازیں اردن میں رہائش پذیر ایسے مہاجر بچوں کو بھی اسکول میں رجسٹر نہیں کیا جاتا تھا، جن کے پاس خصوصی ’سروس کارڈز‘ نہیں ہوتے تھے۔ یہ امر اہم ہے کہ ایسے مہاجرین جو جولائی سن 2014 میں عارضی پناہ گاہوں کو باقاعدہ طریقے سے چھوڑ چکے ہیں، انہیں مزید ایسے کارڈز جاری نہیں کیے جاتے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق اردن میں مجموعی طور پر دو لاکھ چھبیس ہزار ایسے بچے رجسٹر ہیں، جن کی عمریں اسکول جانے والی ہیں۔ تاہم ان میں سے اسّی ہزار بچے گزشتہ برس اسکول میں رجسٹر نہیں ہو سکے تھے۔

عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق شام میں خانہ جنگی سے قبل وہاں 22.4 ملین نفوس آباد تھے، جن میں سے 4.8 ملین تشدد اور شورش کے باعث ملک سے فرار ہو چکے ہیں جبکہ 8.7 ملین افراد شام کے اندر بھی بے گھری کا شکار ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں