اردن کے شاہ کا سیاسی اصلاحات کا وعدہ
13 جون 2011اردن کے بطور ریاست کے قیام کے نوے سال مکمل ہونے کے علاوہ اقتدار پر براجمان ہونے کی بارہویں سالگرہ کے موقع پر شاہ عبداللہ نے قوم سے خصوصی خطاب کیا۔ اس خطاب کے دوران انہوں نے نئے انتخابی عمل کی حمایت کرتے ہوئے مزید سیاسی اصلاحات کا عندیہ بھی دیا ہے۔ اپنی تقریر میں شاہ نے ایک با اختیار قانون ساز ادارے کو وقت کی ضرورت قرار دیا جو دستور میں مناسب ترامیم کرنے کا مجاز ہو۔ انہوں نے تیز تر اصلاحات کا بھی اپنی تقریر میں ذکر کیا۔
حال ہی میں پیش کی جانے والی تجویز کے مطابق اب ملکی کابینہ کے انتخاب کے لیے ووٹنگ کا بندوبست کیا جائے گا۔ اس سے قبل شاہ خود ہی ملک کے لیے ایک وزیر اعظم نامزد کرتا تھا اور وہ اپنی کابینہ کے لیے وزراء کا بعد میں انتخاب کیا کرتا ہے۔ اب نئی تجویز کے تحت ملک کے لیے وزیر اعظم کا انتخاب عوامی ووٹوں پر ہو گا۔
اپنی تقریر کے دوران شاہ عبداللہ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ نئے انتخابی عمل میں ملک کے تمام عوام شریک ہو کر اسے کامیاب بنائیں گے۔ اس طرح ان کے اپنے نمائندے پارلیمنٹ تک رسائی حاصل کرسکیں گے۔ دوسری جانب شاہ عبداللہ کی تقریر پر مذہبی جماعتوں نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اس سیاسی اصلاحاتی عمل کو انتہائی محدود قرار دیا ہے۔ وہ پہلے ہی اس کے بائیکاٹ کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس انتخابی تجویز کا اعلان چند روز قبل کیا گیا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ اردن کے اندر بھی سیاسی اصلاحات کے مطالبے کے تناظر میں کئی ہفتوں سے ہلکے پھلکے مظاہروں اور احتجاجات کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت مخالف مذہبی گروپوں کے مطابق تازہ اصلاحات بھی ایک کمیٹی نے تجویز کی ہیں جو ان کے مظاہروں کا نتیجہ ہے۔ اردن کا دارالحکومت عمان حکومت مخالفین کی سرگرمیوں کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔
حکمران شاہ عبداللہ کے حامیوں کا خیال ہے کہ ہاشمی بادشاہت اردن کے اندر قبائلیوں اور فلسطینی نژاد اردنی آبادی کے درمیان ایک رابطے اور مفاہمت کا پل ہے۔ اس کے بغیر ملک انتشار کا شکار ہو سکتا ہے۔ ان دنوں شاہ عبداللہ کی حکومت کو مذہبی مخالفین کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی مضبوط اپوزیشن کے احتجاجات کا سامنا ہے۔ اردن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اخوان المسلمون ہے۔ یہ اور دوسرے سیاسی گروپ ملک میں تبدیلیوں کی راہ میں حکومت کو رکاوٹ خیال کرتے ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل