اسامہ ایبٹ آباد میں کیا کر رہا تھا:امریکی سفیر کا سوال
10 مئی 2011تاہم انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ آیا یہ کاروائی مشترکہ ہوگی یا امریکہ کو کرنی ہے۔ ان خیالات کا اظہار امریکی سفیر نے سندھ یونیورسٹی جامشورو میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ امریکی سفیر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ہمارے اہداف ایک ہیں اور ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پرعزم بھی ہیں۔ انہوں نے طلبہ و طالبات کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی کے تعلقات کی طویل اور سودمند تاریخ ہے اور یہ تعلقات کافی پرانے ہیں اوربہت نتیجہ خیز بھی۔ اسی وجہ سے ہمیں یعنی امریکہ کو فتح نصیب ہوئی ہے۔
کیمرون منٹر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انکا ملک ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان کا خواہاں ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے ساتھ تعاون جاری رکھنا چاھتا ہے۔ ایک طالبعلم نے امریکی سفیر سے پوچھا کہ اگر آپکا ملک ایک مستحکم پاکستان چاہتا ہے تو یہ کیسی مضبوطی ہے کہ امریکہ عملی طور پر پاکستان کی خود مختاری تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستان کے حدود کی خلاف ورزی کرکے ڈرون حملے کیے جارہا ہے اور اب تو کھلے عام شہروں پر بھی حملوں کا آغاز کردیا گیا ہے۔
امریکی سفیر نے سوال کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا، مگر انہوں نے اپنی گفتگو میں یہ پیغام واضح طور پردیا کہ اگر ملا عمر اور ایمن الظواری بھی پاکسستان میں موجود ہوئے تو امریکہ انکے لیے بھی براہ راست کاروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔ مسٹر منٹر کی اس گفتگو کے تناظر میں پاکستانی اخبارات میں شائع ہونے والی یہ خبربھی اہمیت کی حامل ہے کہ فوج اور خفیہ ادارے کوئٹہ میں ایک بڑے فوجی آپریسشن کی تیاری کررہے ہیں، جسکے ذریعے وہ ملا عمر کو گرفتار کرنا چاھتے ہیں۔
ایک اور طالبعلم نے امریکی سفیر سے پوچھا کہ امریکہ کا موقف ہے کہ اگر مشن کے بارے میں پاکستان کو آگاہ کرتے تو ہدف خبردار ہوجاتا۔ اسکا مطلب ہے کہ جنرل پاشا، اسامہ کو خبردار کردیتے؟ یہ سنگین الزام ہے آپ اس ملک کے خفیہ اداروں کے بارے میں بات کررہے ہیں جسکے ساتھ مل کر آپ کام کررہے جس کے ساتھ مل کر القاعدہ کے کئی مطلوب افراد کو گرفتار کیا گیا۔
امریکی سفیر نے اپنے روایتی انداز میں مسکراتے ہوئے دھیمے لہجے میں سوال کا جواب کچھ یوں دیا ’ امریکہ جب حساس آپریشن کرتا ہے تو آپریشنل سکیورٹی اہم ہوتی ہے‘۔ انہوں نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن کے بارے میں صرف چند متعلقہ افراد کو علم ہوتا ہے۔
شمالہ وزیرستان اور حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کیمروں منٹر نے کہا کہ میں صرف یہی کہون گا کہ آپ اگر آپ آستین میں سانپ پالیں گے تو وہ آپ کو ہی ڈسیں گے۔
پاک امریکہ تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کی ارا میں ایبٹ آباد آپریشن کے بعد اچانگ امریکی سفیر کی سرگرمیوں میں اضافہ خصوصاً ملک کے طول عرض میں کیے جانے والے دورے۔ بے مقصد نہیں۔ بلکہ امریکہ آپریشن جرامینو کے بعد پاکستان کے ہر طبقے میں اس حوالے سے موجود ردعمل کا بغور جائزہ لینا چاھتا ہے، تاکہ مستقبل کی حکمت عملی تیار کرتے وقت ردعمل کے عنصر کو مدنظر رکھا جاسکے۔
رپورٹ: رفعت سعید کراچی
ادارت: کشور مصطفیٰ