اسامہ بن لادن ہلاکت کے وقت القاعدہ کےآپریشنل امور سے لا تعلق تھے، امریکی ماہر
8 دسمبر 2011خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس امریکی ماہر نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر اس بات کا انکشاف کیا کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ہلاکت کے بعد ان کی رہائش گاہ سے ملنے والے دستاویزات کے جائزے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں دو سو شہادتوں کا جائزہ لیا گیا اور ان میں اسامہ بن لادن کے زیر استعمال مختلف اشیاء جیسا کہ نوٹ بکس، فائلیں،کمپیوٹر اور یو ایس بی ڈرائیوز بھی شامل تھیں۔
یہ تمام اشیاء امریکی کمانڈوز نے القاعدہ کے سابق رہنماء کو ہلاک کرنے کے آپریشن کے دوران ان کی رہائش گاہ سے برآمد کی تھیں ۔ بعد ازاں ان تمام اشیاء کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا اور یہ بات سامنے آئی کہ اسامہ بن لادن کافی عرصے سے القاعدہ کی آپریشنل کارروائیوں سے لا تعلق تھے اور اس سلسلے میں وہ ہلاکت کے وقت عملی طور پر غیر فعال تھے۔اسامہ بن لادن کی تحریریں بھی القاعدہ میں ان کی ایک عام سی حیثیت کی نشاندہی کرتی ہیں جن میں وہ امریکہ پر حملے جاری رکھنے کی ہدایات پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔
امریکی ماہر نے بتایا اسامہ کے زیر استعمال گزشتہ برس فروری 2010ء کی ایک نوٹ بک کے مطابق وہ القاعدہ کے اہلکاروں کو دی جانے والی ترقی کے حوالے سے کچھ حیران ہیں لیکن حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ شدت پسند تنظیم کے انتظامی اور آپریشنل امور میں دور دور تک ان کا کردار نظر نہیں آتا ہے۔ اسی طرح کچھ اشیاء ان کی نجی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے بھی سامنے آئی ہیں جن میں اسامہ بن لادن کی ایک اہلیہ کی جانب سے ان کی بیٹی کی شادی کے حوالے سے کاوشیں بھی شامل ہیں۔
امریکی ماہر نے اس جانب بھی نشاندہی کی کہ اسامہ اپنی سکیورٹی کے پیش نظر ایک ماہ کے دوران صرف ایک یا دو مرتبہ القاعدہ سے پیغامات کا تبادلہ کرتے تھے جو اتنے بڑے نیٹ ورک کو چلانے میں ان کے غیر فعال ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ اسامہ بن لادن کو امریکی کمانڈوز نے رواں برس دو مئی کو پاکستانی علاقے ایبٹ آباد میں ایک آپریشن کے دوران ہلاک کر دیا تھا اور بعد میں ان کی لاش کو سمندر برد کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: حماد کیانی