اسامہ کی ہلاکت، خیبر پختونخوا میں ردعمل
2 مئی 2011جمعیت علمائےاسلام (ف) نے اسامہ بن لادن کو شہید اسلام قرار دیا ہے۔ ادھر طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسامہ بن لادن کی موت کی تصدیق ہوگئی تو وہ ان کی موت کا بدلہ لیں گے اور وہ امریکی اور پاکستانی سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ نے ثابت کردیا ہے کہ وہ اسلام کا سب سے بڑا اور حقیقی دشمن ہے۔
صوبائی دارالحکومت پشاور میں بعض حلقے اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ القاعدہ کا سربراہ اسامہ بن لادن امریکی خفیہ کارروائی میں مارا گیا ہے۔ بعض توایبٹ آباد جسے پرامن شہر اور تفریحی مقام پر ان کی موجودگی کی امریکی دعوے کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے نے مختلف سیاستدانوں کا موقف جانا ہے، جس میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بارے میں کہنا ہے،’ اسامہ بن لادن کی موت بڑی خبر ہے تاہم انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے اور نہ ہی انہیں آپریشن کے بارے میں آگاہ کیا تھا‘۔
جمعیت علمائےاسلام فضل رحمان گروپ سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر اطلاعات آصف اقبال داودزئی کا کہنا ہے،’اس کارروائی سے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کی خلاف ورزی میں مزید اضافہ ہوا ہے، ڈرون حملوں کا سلسلہ پہلے سے جاری ہے اور اب امریکہ نے اپنی مرضی سے آپریش کیا ہے۔ پاکستان کے صدر اور وزیر اعظم کو پتہ بھی نہیں لگا اور دونوں کے بیا نات میں تضاد بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ آپریشن میں پاکستانی شامل نہیں تھے۔
آصف اقبال داودزئی کا کہنا تھا کہ وہ تو شروع دن سے ہی کہتے ہیں کہ پاکستان میں مساجد ، مدارس، امام بارگاہوں، جنازوں اور دیگر حساس مقامات پر بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں امریکی انٹیلی جنس ادارے ملوث ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے رد عمل میں جو بھی بدامنی ہوگی وہ بھی یہی امریکی ادارے ہی کریں گے۔ اس دوران خیبر پختونخوا اسمبلی کے اجلاس میں دینی اور سیکولر جماعتوں کے ارکان کے مابین بھی اسامہ کی ہلاکت زیر بحث رہی ۔
جمعیت علمائےاسلام کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر مفتی کفایت اللہ نے اسامہ بن لادن کو اسلام کا ہیرو قرار دیتے ہوئے اس قتل کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسامہ بن لادن کو مسلمان اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایبٹ آباد کا واقعہ پاکستانی آرمی کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے ۔ اس کےجواب میں عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور کا کہنا تھا، ’اسامہ بن لادن دنیا کا بڑا دہشت گردتھا، اسے مارنے کے لیے صوبائی حکومت سے اجازت کی کوئی ضرورت نہیں تھی،’ اسامہ بن لادن نام نہادجہاد کے نام پر سعودی عرب سے ہمارے خطے میں آیا اور ہمارے معصوم بچوں کو مار کر دہشت گردی کو فروغ دیا‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا،’ ہمارے ملک میں اس کی وجہ سے لاتعداد بے گناہ افراد مارے گئے‘۔
پاکستان پیپلز پارٹی صوبہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینئر وزیر رحیم داد خان نے کہا،’ پاکستان نے ہمشہ دہشت گردی کے مقابلے میں مذاکرات کو ترجیح دی ہے۔ مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ باہر سے آکر پاکستان میں عدم استحکام پیدا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب دہشت گردوں کے لیے لوگوں کے دلوں میں ہمدردی ختم ہوگئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پی پی پی کا موقف واضح ہے اور پارٹی کے اراکین اسامہ کی ہلاکت کے حوالے سے وزیر اعظم کی پالیسی بیان کی تائید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو صوبے میں تخریب کاری پھیلائے گا اس کا انجام اسامہ کی طرح ہوگا۔
پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات زاہد حسین نے ڈوئچے ویلے کو اپنا موقف بتاتے ہوئے کہا،’اس سے قبل بھی امریکہ میں انتخابات کا وقت قریب آتے ہی سابق صدر بش نے اسامہ بن لادن کی موت کا دعویٰ کیا تھا اور انہیں آج بھی یہ ڈرامہ لگتا ہے۔ امریکہ اس خطے میں کوئی نئی گیم کھیلنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ ان کے بقول امریکہ نے اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کی وجہ سے افغانستان پر حملہ کیا تھا اور یہاں اپنی فوج اتار دی اب اگر بقول ان کے اسامہ بن لادن مرچکا ہے تو ان کا بھی اس خطے میں ٹہرنا بلاجواز ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک وزارت خارجہ کے موقف کا تعلق ہے تو انہوں نے تو حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی تھی۔
جماعت اسلامی کے ترجمان اسراراللہ ایڈوکیٹ کا کہنا تھا ،’پاکستان کے اندر کارروائی کی ہم مذمت کرتے ہیں، یہا ں فوج سے عوام یہ سوال کریں گے کہ یہ لوگ پاکستان کے حدود میں کس طرح داخل ہوئے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا ہدف اسامہ بن لادن تھا، اب ان کے بقول چونکہ وہ زندہ نہیں رہا تو انہیں افغانستان سے نکل جانا چاہیے،’ یہ ایک بہترین موقع ہے کہ پاکستان اس اتحاد سے فوری طور پر الگ ہوجائے اور اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد بھی پاکستان پر دباﺅ میں اضافہ ہوگا ۔
اسراراللہ ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان میں ہر لحاظ سے جنگ ہار چکا ہے اور اس ہار کا سارا ملبہ اب پاکستان پر ڈالنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک افغانستان میں امریکی فوج موجود ہیں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوں گے۔ بعض سیاستدانوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اب امریکہ کو پاکستان میں کہیں پر بھی کارروائی کرنے کا جواز مل گیا ہے۔ پہلے پاکستانی عوام صرف ڈرون حملوں کو روکنے کا مطالبہ کرتے تھے اب زمینی آپریشن کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے اور جہاں کہیں امریکہ کو اپنا ہدف حاصل کرنا ہو گا وہ وہاں پہنچ جایئں گے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد شمالی وزیرستان میں آپریشن اور کوئٹہ شوریٰ کے خلاف کارروائی شروع ہو جائے۔ جس سے خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے ممکنہ خطرات میں اضافہ ہوگا۔
رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور
ادارت: عاطف بلوچ