استنبول حملہ: دہشت گردی کے خلاف جنگ آخر تک، ایردوآن
1 جنوری 2017ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول سے اتوار یکم جنوری کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ استنبول کے رائنا نائٹ کلب میں کیا جانے والا حملہ ’ترکی کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش‘ تھا۔
ترک سربراہ مملکت کے مطابق انقرہ حکومت دہشت گردی کی ہر ممکنہ شکل اور ایسی کارروائیوں کے پیچھے کارفرما ہر قسم کے دہشت گرد گروپوں کے خلاف اپنی جنگ ایسی قوتوں کی حتمی شکست اور خاتمے تک جاری رکھے گی۔
صدر ایردوآن نے اس حملے کے بعد اتوار کی صبح جاری کیے گئے اپنے ایک تحریری بیان میں کہا، ’’بطور قوم ہم نہ صرف مسلح دہشت گردانہ حملے کرنے والے گروہوں اور ان کے پیچھے سرگرم قوتوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھیں گے بلکہ ترکی پر کیے جانے والے جملہ اقتصادی، سیاسی اور سماجی حملوں کو بھی پوری قوت سے ناکام بنا دیا جائے گا۔‘‘
صدر ایردوآن نے اپنے اس بیان میں مزید کہا، ’’وہ (ایسے حملے کرنے والے) انتشار پھیلانا چاہتے ہیں، ہمیں اخلاقی طور پر ناامید کرنا چاہتے ہیں اور ترکی کو غیر مستحکم بنانا چاہتے ہیں۔ لیکن ہم ایسے قابل مذمت حملوں کا، جن میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، طیش میں آئے بغیر ٹھنڈے دماغ سے ایک قوم کے طور پر مل کر مقابلہ کریں گے۔ ہم ایسے گھناؤنے اقدامات کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی کسی کو بھی کبھی اجازت نہیں دیں گے۔‘‘
استنبول میں آبنائے باسفورس کے کنارے اس شہر کے یورپی حصے میں ملکی اور غیر ملکی اشرافیہ میں انتہائی مقبول اور بہت مہنگے رائنا نائٹ کلب میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب نیا سال شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ایک مسلح حملہ آور نے وہاں موجود افراد پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی تھی۔
اس حملے میں کم از کم 39 افراد ہلاک ہوئے، جن میں ترک وزیر داخلہ کے مطابق کم از کم 15 غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس حملے میں 60 کے قریب افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں سے متعدد کی حالت تشویش ناک ہے۔
اس حملے کے بعد واحد حملہ آور، کئی رپورٹوں کے مطابق مبینہ طور پر موقع پر ہی اپنا لباس بدل کر، وہاں سے فرار ہو گیا تھا اور ترک سکیورٹی اہلکار اس کی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اس حملے کی دنیا بھر میں بہت سے رہنماؤں نے شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ایک بزدلانہ اقدام اور سال 2017ء کا افسوس ناک آغاز قرار دیا ہے۔ ترک حکام کے بقول یہ حملہ واضح طور پر ایک دہشت گردانہ کارروائی تھا۔ ابھی تک اس حملے کی کسی بھی شدت پسند گروپ یا تنظیم نے ذمے داری قبول نہیں کی۔