اسرائيل پر ترکی کی تنقيد نمائشی۔ ايمن الظواہری
16 اگست 2010دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے نائب سربراہ ايمن الظواہری نے اسرائيل کے ساتھ ترکی کے روابط کی وجہ سے ترک حکومت کو شديد تنقيد کانشانہ بنايا ہے۔ ايک امريکی ویب مانيٹرنگ گروپ SITE کے مطابق الظواہری کے نام سے خود کو متعارف کرانے والے شخص نے اپنے 20 منٹ دورانیے کے ایک آڈيو پيغام ميں يہ بھی کہا کہ تبديلی اُس وقت آئے گی، جب ترک عوام اپنی حکومت سے کہيں گے کہ وہ اسرائيل کو تسليم کرنا بند کردے، اُس سے تعاون ختم کر دے اور مسلمانوں کو ہلاک کرنے کے لئے ترک فوج کو افغانستان بھيجنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔
يہ آڈيو پيغام انٹرنیٹ پر کئی مسلم ويب سائٹس پر بھی شائع کيا گيا ہے۔ اس پيغام ميں الظواہری نے يہ بھی کہا کہ ترک حکومت بيانات اور کچھ امدادی سامان روانہ کرنے کے ذريعے فلسطينيوں سے ہمدردی کا اظہار تو کرتی ہے ليکن درحقيقت وہ اسرائيل کو تسليم کرتی ہے، اُس کے اسرائيل کے ساتھ تجارتی روابط ہيں، وہ اسرائيل کے ساتھ فوجی تربيتی پروگراموں ميں شريک ہے اور اُس کے ساتھ خفيہ معلومات کا تبادلہ بھی کرتی ہے۔
اس ٹيپ کے اصلی ہونے کی فوری طور پر تصديق نہيں ہو سکی ہے، جس ميں الظواہری نے اپنے پيغام کا آغاز غزہ کے فلسطينيوں کے لئے امداد لے جانے والے بحری قافلے کے ترک امدادی کارکنوں کی ہلاکت پر اُن کے لواحقين اور ترک عوام کے ساتھ اظہار تعزيت سے کيا ہے۔
اسرائيلی کمانڈوز نے 31 مئی کو غزہ کی اسرائيلی ناکہ بندی توڑ کر فلسطينيوں کو امدادی سامان پہنچانے کی کوشش کرنے والے چھ بحری جہازوں کے قافلے پر حملہ کر کے نو ترک امدادی کارکنوں کو ہلاک کر ديا تھا۔ اس خونريز حملے پر اسرائيل کو شديد عالمی تنقيد کا سامنا کرنا پڑا اور اِس سے ترکی اور اسرائيل کے تعلقات بھی بہت زيادہ متاثر ہوئے ہيں۔
ايمن الظواہری نے اپنے پيغام ميں يہ بھی کہا کہ ترک حکومت غزہ کے مسلمانوں کے خلاف اسرائيل کے جرائم پر تو تنقيد کرتی ہے، ليکن وہ خود افغانستان کے مسلمانوں کے خلاف اسی قسم کے جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ الظواہری نے کہا کہ ترک حکومت اور فوج دنيا کے ’صليبی جنگجوؤں کا آلہء کار‘ بنی ہوئی ہے اور افغانستان ميں ترک فوج نيٹو کی قيادت کرتے ہوئے مسلمانوں کے قتل اور اُن کے مکانات اور ديہات کو آگ لگانے ميں شريک ہے۔
ترک پوليس پچھلے ہفتے دہشت گرد تنظيم القاعدہ کے ساتھ روابط کے شبے ميں 15 افراد کو گرفتار کر چکی ہے۔ نومبر سن 2003 ميں ترکی ميں دو خود کش حملوں ميں برطانوی قونصل جنرل سميت 63 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان حملوں کا الزام القاعدہ پر لگايا گيا تھا اور ان حملوں کے بعد سے ترک پوليس باقاعدگی سے القاعدہ کے حاميوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ اپنے پیغام میں الظواہری نے ايران پر بھی تنقيد کی کہ وہ مبینہ طور پر افغانستان اور عراق ميں ’’صليبی جنگجوؤں کا ساتھ دے رہا ہے۔‘‘
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک