اسرائیل قریبی اتحادیوں سے بھی دُور ہو سکتا ہے، امریکا
2 اکتوبر 2014
واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل پر یہ کڑی تنقید صدر باراک اوباما کی اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ اس ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے، جو بدھ کو وائٹ ہاؤس میں ہوئی۔
امریکا نے کہا ہے کہ اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں آباد کاری کا نیا منصوبہ شروع کیا تو فلسطینیوں کے ساتھ قیام امن کے لیے اس کی نیت پر سوال اٹھیں گے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ کے مطابق صدر باراک اوباما نے بینجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں ان تحفظات کا اظہار کیا حالانکہ دونوں رہنماؤں نے صحافیوں سے بات چیت میں اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔
ارنسٹ کا کہنا تھا: ’’اس پیش رفت پر محض عالمی برادری کی جانب سے مذمت کا سامنا ہی کرنا پڑے گا۔ اس سے فلسطینیوں کے ساتھ تنازعے کے بات چیت کے ذریعے پر امن حل کے لیے اسرائیل کی نیت پر سوال بھی اٹھیں گے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے پی نے بدھ کو نیتن یاہو کے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اس تنقید کو ردّ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے بیان دینے سے پہلے لوگوں کو تمام معلومات حاصل کرنا چاہییں۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ اوباما نے ان سے ملاقات میں آباد کاری کے موضوع پر بات کی لیکن کوئی مخصوص معاملہ اس گفتگو پر حاوی نہیں رہا۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس بات کی تصدیق کی کہ نیتن یاہو نے اپنے ساتھ سفر کرنے والے صحافیوں سے یہ باتیں کیں۔
اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں ڈھائی ہزار گھر تعمیر کرنے کا ایک نیا منصوبہ بنایا ہے۔ اس علاقے میں آباد کاری کے اسرائیلی منصوبوں کو امریکا کی طرف سے مسلسل تنقید کا سامنا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے حال ہی میں مشرقی یروشلم کے قریبی عرب علاقے سلوان میں رہائشی عمارتوں پر قبضہ کیا ہے جو قابلِ مذمت ہے۔ ارنسٹ نے اس پیش رفت کو اشتعال انگیز قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت پر جب حالات پہلے ہی کشیدہ ہیں، اس طرح کی کارروائیوں سے کشیدگی میں مزید اضافہ ہی ہوگا۔
قبل ازیں وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد باراک اوباما اور بینجمن نیتن یاہو نے صحافیوں سے بات چیت کی۔ اے پی کے مطابق ماضی میں دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ہیں تاہم اس بات چیت میں دونوں نے ایک دوسرے کے لیے نرم گوئی سے کام لیا۔