اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر اقتصادی پابندیاں
30 اپریل 2014اسرائیل کے ایک اعلیٰ عہدیدار کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کے تحت اسرائیل فلسطینی انتظامیہ کے نام پر جمع کردہ ٹیکس کے پیسوں سے فلسطینی علاقوں کو دی جانے والی بجلی اور پانی کے قرضے ادا کرے گا۔ اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں پر پابندیوں کے سلسلے میں یہ پہلا قدم ہو گا، جس کا اطلاق فوری طور پر کیا جا رہا ہے۔
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان امن مذاکرات گزشتہ ہفتے اس وقت معطل کر دیے گئے تھے جب فلسطینی صدر محمود عباس کی فتح پارٹی نے اسلام پسند گروہ حماس کے ساتھ اتحاد کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔
اسرائیل حماس کو دہشت گرد گروہ خیال کرتا ہے۔ فریقین کے درمیان براہ راست امن بات چیت کا آغاز گزشتہ برس ہوا تھا، جس میں کسی معاہدے تک پہنچنے کے فریم ورک کے لیے 29 اپریل کی ڈیڈ لائن مقرر کی گئی تھی، تاہم نو ماہ تک جاری رہنے والے ان مذاکرات میں فریقین کوئی فریم ورک طے کرنے میں ناکام رہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں آباد کاری کی کوششوں کو بھی مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے ایک اسرائیلی گروپ ’پیس ناؤ‘ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق اسرائیل نے تیرہ ہزار سے زائد گھروں کی تعمیر کا منصوبہ امن مذاکرات کے دوران آگے بڑھایا۔ ان میں سے تقریباﹰ نو ہزار گھروں کی تعمیر کا منصوبہ مغربی کنارے کے لیے ہے جبکہ پانچ ہزار سے زائد کا مشرقی یروشلم کے لیے۔
پیس ناؤ کے ترجمان لیئور امیہائی کا کہنا ہے: ’’آبادکاریوں میں تقریباﹰ چودہ ہزار گھر تعمیر کرنے یا ایسے منصوبے کی حوصلہ افزائی کرنے والی حکومت ۔۔۔ فلسطینی ریاست اور پر اُمن دو ریاستی حل ڈھونڈنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔‘‘
محمود عباس نے منگل کو ایک مرتبہ پھر کہا کہ وہ مذاکرات کی میز پر اسی صورت میں لوٹیں گے جب اسرائیل تین ماہ کے لیے آبادکاری کا عمل روک دے گا، ممکنہ طور پر دو ریاستی حل کے لیے سرحدوں پر بات کرنے پر تیار ہو گا اور فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا۔
بینجمن نتین یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے مذاکرات کی جانب لوٹنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا محمود عباس حماس کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کو ختم کرتے ہیں یا نہیں۔