اسرائیل میں سات ہزار سے زائد فلسطینی قیدی
1 جنوری 2010جمعرات 31 دسمبر تک تین سو سے زائد فلسطینیوں کو بغیر کوئی مقدمہ چلائے اسرائیلی جیلوں میں بند رکھا گیا تھا۔ 2009 کے آخری روز مہیا کئے گئے ان اعدادوشمار کے مطابق ان زیر حراست فلسطینیوں میں حماس تحریک کے سترہ ارکان پارلیمان اور دو سابق وزراء بھی شامل ہیں۔
قیدیوں کی اکثریت کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے سے ہے۔ ان فلسطینی قیدیوں کی تعداد کے حوالے سے دوسرے نمبر پر غزہ جبکہ تیسرے نمبر پر مشرقی یروشلم کا نام آتا ہے۔ اسرائیلی جیلوں کے ایسے فلسطینی قیدیوں میں فخری اور نائیل برغوتی نامی دو بھائیوں کے علاوہ اکرم منصور نامی ایک اور کارکن شامل ہے۔ یہ تینوں گزشتہ بتیس برسوں سے اسرائیل کی حراست میں ہیں۔ ان افراد کا شمار ان تین سو سے زائد فلسطینیوں میں ہوتا ہے جنہیں 1994 میں فلسطینی اتھارٹی کے قیام سے قبل اسرائیلی اہلکار حراست میں لے چکے تھے۔ فلسطینی حکام کے بقول اب تک 200 سے زائد فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں انتقال کر چکے ہیں۔
دریں اثنا عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس نے کہا ہے کہ فلسطینیوں کی قید میں اسرائیلی فوجی گیلاد شالت کی رہائی کے بدلے اسرائیلی جیلوں سے فلسطینیوں کی رہائی کے معاملے پر مذاکرات کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ حماس کے ایک عہدیدار محمد الازہر کے بقول بات چیت ابھی جاری ہے البتہ حماس کے بعض تحفظات بھی اپنی جگہ ہیں۔
دیگر اطلاعات کے مطابق دمشق میں حماس کی قیادت نے اسرائیل کی جانب سے قیدیوں کے تبادلے کی نئی پیش کش پر غور کرنے کے بعد اسے مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیل نے اپنے ایک فوجی گیلاد شالت کے بدلے ایک ہزار فلسطینیوں کی رہائی کی پیش کش کی تھی۔
اسرائیل کی جانب سے غزہ کے طویل محاصرے کے باعث پیدا شدہ انسانی المیے کی جانب عالمی توجہ مبذول کرانے کے لئے گزشتہ ہفتوں کے دوران مختلف ممالک سے درجنوں سماجی کارکنوں نے قاہرہ میں احتجاجی مظاہرہ بھی کیا۔ اس اجتماع میں بیالیس ملکوں سے آنے والے یہ افراد غزہ جانا چاہتے تھے تاہم اسرائیل اور مصر کی جانب سے انہیں وہاں جانے نہیں دیا گیا۔ قاہرہ میں فرانسیسی سفارتخانے کے سامنے تین سو مقامی شہریوں نے اسی سلسلے میں احتجاجی کیمپ لگائے۔ ان مظاہروں میں شامل ایک امریکی شہری کا کہنا تھا کہ مظاہرین ’’غزہ کے شہریوں کو امید کی کرن دکھانے آئے ہیں، تاکہ وہ محسوس کر سکیں کہ وہ دنیا میں اکیلے نہیں ہیں۔‘‘
رپورٹ: شادی خان
ادارت: مقبول ملک