فلسطین اسرائیل تنازعہ اور امریکہ
4 نومبر 2009امریکی ایوان نمائندگان نے غزہ جنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ کی تحقیقاتی رپورٹ کوجانبدارانہ قراردیتے ہوے اس کی مذمت کردی ہے۔ جنوبی افریقی جج رچرڈ گولڈ سٹون کی سربراہی میں تیار کردہ اس رپورٹ میں اسرائیلی انتظامیہ اور فلسطینی عسکریت پسندوں کی تنظیم حماس پر جنگی جرائم کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
منگل کے روز امریکی ایوان نمائندگان میں منظورکردہ قرارداد کے مطابق اس رپورٹ میں امریکہ کے قریبی حلیف اسرائیل کے ساتھ تعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ گولڈ اسٹون رپورٹ میں غزہ جنگ کے دوران تقریباً چودہ سو بے گناہ افراد کی ہلاکت کا ذمہ دار اسرائیل اور حماس دونوں کو قراردیا گیا تھا۔ دونوں اس رپورٹ کو مسترد کر چکے ہیں۔
رپورٹ میں اسرائیل پر زیادہ الزام تراشی کی گئی تھی اور چھ ماہ کے اندر غزہ جنگ کی قابل اعتماد تحقیقات نہ کرنے کی صورت میں دونوں کو متنبہ کیا گیا تھاکہ معاملہ جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔
اھر امریکی وزیرخارجہ ہلیری کلنٹن نے فلسطینی اور اسرائیلی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے بعد، پیرکو مراکش میں عرب ملکوں کے وزرائے خارجہ سےملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد اپنے ایک بیان میں کلنٹن نے کہا کہ یہودی بستیوں میں تعمیر و توسیع سے متعلق اسرائیلی مؤقف اس حوالے سے سبھی توقعات پوری نہیں کرتا۔ ماہرین کلنٹن کے اس بیان کو عرب دنیا کی اِسی وجہ سے امریکہ سے ناراضگی کم کرنے کی کوشش کا نام دے رہے ہیں۔
اس ناراضگی کی وجہ عرب دنیا میں پایا جانے والا ایہ احساس ہے کہ اوباما انتظامیہ نے شروع میں تو اسرائیل کو فلسطینیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر مجبور کرنے کے لئے کافی دباؤ ڈالا، اور یہ بھی کہا کہ اسرائیل کو یہودی بستیوں میں تمام تعمیراتی منصوبے فوری طور پر روک دینا چاہیئں لیکن وزیر اعظم نیتن یاہو کے سخت گیر مؤقف کے بعد ہلیری کلنٹن نے ابھی حال ہی میں یہ بھی کہہ دیا کہ اسرائیل کے لئے اس بات کی حیثیت کسی پیشگی شرط کی نہیں کہ فلسطینیوں کے ساتھ مکالمت سے پہلے یہودیوں بستیوں میں تعمیراتی منصوبے روکے جائیں۔
اس پس منظر میں عرب وزرائے خارجہ کی طرف سے امریکہ پر تنقید میں کمی کی کوشش کرتے ہوئے ہلیری کلنٹن نے کہا کہ اسرائیل کا اِن بستیوں سے متعلق رویہ توقعات سے کم لچکدار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب ملکوں کے وزارتی اجلاس میں کلنٹن شرکاء کو اس امر کا قائل کرنے میں ناکام رہیں کہ امریکہ بڑی سنجیدگی سے مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی تعمیرات رکوانا چاہتا ہے۔
مراکش میں اپنے تازہ ترین بیان میں کلنٹن نے یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کی کہ موجودہ دورے کے دوران ان کا اسرائیلی توسیع پسندی کے حوالے سے تنقیدی رویہ بہت نرم تھا۔ اپنے اس بیان میں ساتھ ہی کلنٹن نے یہ بھی کہا کہ فلسطینی صدر محمود عباس کی امن کوششیں اور مغربی کنارے کے علاقے میں اضافی سیکیورٹی مثبت عوامل ہیں، اور وہ توقع کرتی ہیں کہ اسرائیل بھی اس حوالے سے مثبت رد عمل کا مظاہرہ کرے گا۔ محمود عباس نے ابو ظہبی میں ہلیری کلنٹن کے ساتھ ملاقات میں واضح کر دیا تھا کہ فلسطینی اسرائیل کے ساتھ جس طرح کا قیام امن چاہتے ہیں، اُس کے لئے جغرافیائی طور پر سرحدوں کا تعین 1967 کی جنگ سے پہلے کی صورت حال کے مطابق ہو گا۔
عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل امر موسی کے مطابق "امریکہ کا اسرائیلی آبادکاری کے حوالے سے سست رویہ اُن توقعات کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جو صدر اوباما کی عرب اسرائیل پالیسی کے بعد پیدا ہوئی تھیں"۔
اپنے دورہء مشرق وسطیٰ کے اگلے مرحلے میں ہلیری کلنٹن کو مصر جانا ہے، جہاں وہ صدر حسنی مبارک سے ملاقات کریں گی۔
رپورٹ : عبدالرؤف انجم
ادارت : مقبول ملک