اسرائیل نے شاید بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی، امریکہ
11 مئی 2024بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے جمعے کی شام کہا گیا کہ امریکہ کے مہیا کردہ ہتھیار ممکنہ طور پر غزہ میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ تاہم امریکی حکام کے مطابق جنگی حالات کی وجہ سے یہ جانچنا مشکل ہے کہ کن کن فضائی حملوں میں امریکی ہتھیاروں کے ذریعے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔
امریکی حکام کے مطابق ایسے 'قابل بھروسا‘ شواہد موجود ہیں کہامریکی اتحادی اسرائیل نے حماس کے خلاف جاری کارروائیوں میں عام شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی۔ غزہ پٹی میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری اسرائیلی عسکری کارروائیوں کے اعتبار سے اب تک کا یہ سب سے سخت امریکی بیان ہے۔
جمعے کے روز امریکی کانگریس میں پیش کردہ حکومتی رپورٹ کی سمری جاری کی گئی، جس میں امریکی حکومت کا یہ نقطہ نظر سامنے آیا ہے۔ تاہم اس رپورٹ میں چوں کہ غزہ میں ایسے کسی حملے کی باقاعدہ نشان دہی نہیں کی گئی، اس لیے امریکی حکومت کے پاس اسرائیل کو مہلک ہتھیاروں کی فراہمی پر قدغن لگانے کے لیے کافی اشارہ موجود نہیں۔
امریکی ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں کی مرتب کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں سات ماہ سے جاری عسکری کارروائیوں میں 35 ہزار فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔
اس رپورٹ میں گو کہ غزہ میں امریکی ہتھیاروں سے کیے گئے حملوں کی کوئی واضح تفصیل تو نہیں بتائی گئی، تاہم یہ کہا گیا ہے کہ اسرائیل امریکی ساختہ ہتھیاروں پر 'غیرمعمولی تکیہ‘ کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 'قابل بھروسا‘ شواہد ہیں کہ اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے یہ ہتھیار بین الاقوامی ہیومینیٹیرین قوانین میں طے کردہ ضابطوں کے تحت استعمال نہیں کیے اور عام شہریوں کے تحفظ کے اعتبار سے 'عمدہ راستوں‘ کا خیال نہیں رکھا گیا۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ''اسرائیلی فوج کے پاس تجربہ، ٹیکنالوجی اور معلومات موجود ہیں، جن کے ذریعے عام شہری ہلاکتوں کو کم تر کیا جا سکتا تھا، تاہم زمینی حقائق بہ شمول وسیع تر عام شہری ہلاکتوں کو سامنے رکھا جائے، تو سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آیا اسرائیلی دفاعی افواج واقعی تمام معاملات میں اس بات کا خیا ل رکھ رہی ہیں؟
عام شہریوں پر حملوں کے الزامات
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور دیگر ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی ایسی ایک درجن سے زائد فضائی کارروائیوں میں شامل رہا ہے، جو جنگی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایک غیر سرکاری پینل کی ایک رپورٹ میں بھی کہا گیا تھا کہ ایسے 'قابل اعتبار‘ شواہد موجود ہیں کہ اسرائیل نے جنگی اور ہیومینیٹیرین قوانین کی خلاف ورزی کی اور امدادی قافلوں، طبی کارکنوں، ہسپتالوں، صحافیوں، اسکولوں اور مہاجرین کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔ غزہ میں 31 اکتوبر کو ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ پر کیے گئے ایک اسرائیلی حملے میں ایک سو چھ افراد ہلاک ہو گئے تھے، جب کہ یہ عمارت کسی بھی طرح عسکری ہدف کے زمرے میں نہیں آتی تھی۔
دوسری جانب اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ امریکی اور بین الاقوامی قوانین کی مکمل پاسداری کر رہا ہے اور ایسے تمام الزامات کی تفتیش میں مصروف ہے۔
رفح کے مزید علاقے خالی کرانے کا اسرائیلی حکم
اسرائیل نے غزہ پٹی کے شہر رفح کےجنوب مشرقی حصے کو خالی کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔ ہفتے کے روز اس اسرائیلی اقدام کو رفح میں وسیع ہوتے اسرائیلی آپریشن کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ اور عالمی برادری متعدد مرتبہ خبردار کر چکے ہیں کہ اسرائیل رفح میں بڑی عسکری کارروائی سے اجتناب برتے کیوں کہ اس شہر میں غزہ پٹی کی تقریباﹰ نصف آبادی پناہ لیے ہوئے ہے، تاہم اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بارہا کہہ چکے ہیں کہ رفح میں اسرائیلی فوجی کارروائی ضرور کی جائے گی۔
اس تازہ اسرائیلی اقدام سے رفح میں دو مہاجر بستیاں متاثر ہوئیں ہیں۔ اسرائیلی دفاعی افواج کی جانب سے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس پر جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس علاقے میں موجود عام شہری فوری طور پر بحیرہ روم کی جانب واقع ساحلی علاقے المواسی کی طرف چلے جائیں۔
ع ت / م م، ا ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)