اسرائیل کا ’محفوظ زون‘ کے ایک حصے سے بھی انخلا کا حکم
22 جولائی 2024نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق بائیس جولائی بروز پیر ہزاروں فلسطینی غزہ پٹی کے جنوبی علاقے میں ایک مرتبہ پھر تیز دھوپ میں دھول سے اٹی ہوئی سڑکوں پر چل رہے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے بیگ اٹھائے ہوئے تھے اور وہ بچوں کے ساتھ تھے۔ سینکڑوں فلسطینی خاندانوں نے گدھا گاڑیوں اور خستہ حال کاروں پر سامان لادا ہوا تھا۔
اسرائیلی فورسز کی طرف سے حماس کے جنگجوؤں کے خلاف زمینی اور فضائی کارروائیوں کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی پہلے بھی متعدد بار نقل مکانی کر چکے ہیں۔ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لے جانے والی ایک خاتون خولود الداداص کا کہنا تھا، ''ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ ہم ساتویں یا آٹھویں بار بے گھر ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ تو ہم اپنے گھروں میں سو رہے تھے، انہوں نے ہم پر گولیاں برسانا شروع کر دیں، ہر طرف سے بمباری شروع ہو گئی۔‘‘
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق یہ فلسطینی خاتون بات چیت کرنے کے چند ہی لمحے بعد تھکن کے عالم میں گر پڑیں۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ وہ اب المواصی ریجن کے مشرقی حصے میں حماس کے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے، جو وہاں نہ صرف سرایت کر چکے ہیں بلکہ اسرائیل کی طرف راکٹ بھی داغ رہے ہیں۔ اسرائیلی فوج متعدد مرتبہ کہہ چکی ہے کہ حماس کے جنگجو شہریوں اور مہاجر کیمپوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ڈاکٹروں نے مردہ فلسطینی ماں کے رحم سے نامولود بچے کو بچا لیا
اس لیے اسرائیلی فورسز نے غزہ پٹی کے جنوب میں واقع المواصی کیمپ کے مشرقی حصے کو خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس ماہ کے شروع میں اسرائیل نے اندازہ لگایا تھا کہ کم از کم 1.8 ملین فلسطینی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قائم کیے گئے اسی زون میں ہیں۔ یہ زون بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ تقریباً 14 کلومیٹر پر محیط ہے۔ یہ غزہ کی 2.3 ملین کی مجموعی آبادی کا بڑا حصہ بنتا ہے۔
اسرائیل ک فلسطینی علاقوں پر ’قبضہ‘ غیر قانونی ہے، عالمی عدالت انصاف کی رائے
اقوام متحدہ اور فلاحی گروپوں کا کہنا ہے کہ وہاں کا زیادہ تر علاقہ خیمہ بستیوں سے بھرا پڑا ہے جبکہ وہاں صفائی اور طبی سہولیات کا بھی فقدان ہے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امداد تک رسائی بھی محدود ہے۔ فلسطینی خاندان وہاں کچرے کے پہاڑوں اور گندے پانی سے بھری نالیوں کے درمیان رہنے پر مجبور ہیں۔
غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام کام کرنے والی وزارت صحت کے مطابق جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں اب تک 39,000 سے زائد افراد ہلاک اور 89,800 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی جبکہ قریب 10 ہزار فلسطینی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق ملبے تلے دبے فلسطینیوں کی حقیقی تعداد بھی اب تک کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے ایک دہشت گردانہ حملے میں قریب بارہ سو اسرائیلی شہریوں کی ہلاکت کے بعد اسرائیل نے غزہ میں بڑی فضائی اور زمینی عسکری کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔ اسرائیلی فوج کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں عام شہریوں کی ہلاکتوں اور غزہ میں شہری ڈھانچے کی بڑے پیمانے پر تباہی کے پیش نظر اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا ہے۔
دوسری جانب جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات جاری ہیں جبکہ امریکی اور اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی کہ ''معاہدہ پہلے سے کہیں زیادہ قریب‘‘ ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کہا ہے کہ آئندہ جمعرات کو مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ایک مذاکراتی ٹیم بھیجی جائے گی۔
مصر، قطر اور امریکہ اسرائیل اور حماس کو ایک مرحلہ وار جنگ بندی معاہدے کا قائل کرنے کی کوشش میں ہیں، جس سے لڑائی بند اور یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہو سکے گی۔ دریں اثنا وزیر اعظم نیتن یاہو پیر کو امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے لیے امریکہ کے دورے پر روانہ ہو گئے ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ نے اسرائیل پر وسطی غزہ میں اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کے ایک قافلے کو نشانہ بنانے کا الزام عائد کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اس قافلے کی نقل و حرکت کے بارے میں اسرائیلی فورسز آگاہ تھیں۔ اقوام متحدہ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والے کارکنوں کو نشانہ بنانے پر اسرائیل کی شدید مذمت کی ہے۔ ابھی تک اسرائیلی فوج نے اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ا ا / ع ب، م م (اے پی، اے ایف پی)