اسرائیل کو اپنے نائب وزیر خارجہ کے رویہ پر افسوس
13 جنوری 2010اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتن یا ہو نے اس افسوس کو معافی سے تعبیر کیا ہے تاہم اسرائیلی نائب وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں کہیں بھی لفظ معافی استعمال نہیں کیا۔
دوسرے کئی مسلمان ملکوں کے برعکس مسلم اکثریت رکھنے سیکولرترکی کے اسرائیل سے بہت خوشگوار تعلقات رہے ہیں لیکن دونوں ملکوں میں سفارتی تناؤ پیر کے روز اس وقت پیدا ہوا، جب اسرائیل کے نائب وزیر خارجہ نے ترک سفیر کے خلاف 'نا مناسب' زبان استعمال کی۔ ترکی نے اِسے 'آداب سفارت کاری' کے خلاف قرار دیتے ہوئے اسرائیل سے معافی کا مطالبہ کیا تھا۔
ایسا لگتا ہے کہ اپنے رویے پر افسوس کا اظہار کرنے کے باوجود، ڈینیئل ایالون ترکی سے کئی دیگر معاملات پر اب بھی سخت نالاں ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں واضح کیا کہ ترک رہنماؤں کی اسرائیل کی فلسطینی پالیسی پر تنقید اور ترک ٹی وی کےایک 'سامی دشمن' ڈرامے پر ان کا احتجاج بالکل صحیح ہے۔ اس ڈرامے میں اسرائیل کے سراغ رساں ادارے موساد کے اہلکاروں کو ترک نومولود بچوں کو اغواکرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
تاہم ڈینیئل ایالون نے ترک سفیر کے زخموں پر مر ہم رکھنے کے لئے یہ بھی کہا کہ ان کا مطمع نظر ترک سفیر کی شان میں گستاخی کرنا نہیں تھا اور یہ کہ مستقبل میں وہ اپنے احتجاج کو سفارتی آداب کے دائرے میں رکھیں گے۔
ڈینیئل ایالون کا دعویٰ کچھ بھی ہو، تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ انہوں نے ترک سفیر کے ساتھ نامناسب رویہ غیر ارادی طورپر اختیار نہیں کیا تھا۔ سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈینیئل الان نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی موجودگی میں ترک سفیر کو اپنے دفتر میں ترک پالیسیز پر اسرائیل کے احتجاج سے آگاہ کرنے کے لئے پیر کو بلایا تھا۔ اُنہوں نے نہ صرف ترک سفیر کو ایک نچلی نشست پر بٹھایا اور خود ایک اونچی کرسی پر براجمان ہوئے بلکہ جب ترک سفیر کی تواضع کے لئے کھانے پینے کی اشیاء لائی گئیں تو نائب وزیر خارجہ نے انہیں بھی واپس لے جانے کا حکم دیا۔
ترک سفیر چیلی کول نے بعد ازاں صحافیوں کو بتایا کہ اپنے 35 سالہ پیشہ ورانہ سفارتی کیریئر میں اُنہیں کبھی بھی اِس قدر ہتک آمیز طرزِ عمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایالون کے اس معذرت خواہانہ بیان پراطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترک سفیر سے کیا جانا والا احتجاج بنیادی طور پر صحیح تھا، تاہم اس احتجاج کو سفارتی آداب کے دائرے میں ہونا چاہیے تھا۔
ترکی مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کا ایک اہم اتحادی ہے، جس نے نہ صرف اِس یہودی ریاست سے سلامتی کے مسئلے پر تعاون کیا بلکہ سفارتی طور پر بھی اسرائیل کی مدد کی۔ گزشتہ سال ترکی نے اسرائیل اور شام کے درمیان مصالحت کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
رپورٹ، عبدالستار
ادارت، امجد علی