اسرائیلی حملوں نے غزہ میں خاندانوں کے خاندان مٹا دیے
21 جون 2024غزہ میں اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں متعدد بار مختلف خاندانوں کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنا کرسینکڑوں افراد کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ ان حملوں میں مارے جانے والے افراد ایک دوسرے سے خونی رشتوں میں جڑے ہوئے تھے۔ ان خاندانوں کو فلسطینی مہاجرین اور ان کی اولادوں پر مشتمل چھوٹی برادریوں کا ایک ناقابل تلافی نقصان بتایا جاتا ہے۔
بلنکن پھر مشرق وسطیٰ میں، جنگ بندی کی کوششیں تیز تر
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی تحقیقات میں اکتوبر اور دسمبر کے درمیان غزہ کی پٹی میں ایسے متعدد حملوں کا تجزیہ کیا گیا، جن میں 500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ غزہ میں جاری جنگ کے ساڑھے آٹھ ماہ کے دوران تقریباً ہر فلسطینی خاندان کو ہی شدید قسم کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم خاص طور پر اس جنگ کے پہلے مہینوں میں بہت سے خاندانوں کا کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا۔
اسرائیلی فوج نے وسطی غزہ میں نئی زمینی کارروائی شروع کر دی
اے پی نے ایسے حملوں کا جغرافیائی محل وقوع تلاش کر کے ان کا تجزیہ کیا اوراسلحے کے استعمال سے متعلق ماہر تفتیش کاروں کے ساتھ رابطہ کر کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ تجزیہ کاروں اور قانونی ماہرین کے ساتھ اعداد و شمار کو تجزیے کے لیے لندن میں قائم تنازعات کے نگراں ادارے 'ایئروارز' سے بھی رابطہ کیا۔
غزہ اب ’ناقابل رہائشی‘ ہو چکا ہے، اقوام متحدہ
ان تجزیوں کے مطابق اسرائیل نے ان رہائشی عمارتوں اور پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا، جن میں ایک ہی خاندان کے عام لوگ رہتے تھے۔ ان حملوں میں کسی بھی صورت نہ تو کوئی واضح فوجی ہدف تھا اور نہ ہی ان عمارتوں میں موجود افراد کو براہ راست متنبہ کیا گیا۔ ایک خاندان کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے جنگی علاقے میں اپنی عمارت پر سفید پرچم تک نصب کر رکھا تھا۔
غزہ ميں جنگ بندی کے مطالبات بڑھتے ہوئے
کولمبیا یونیورسٹی میں ایک فلسطینی نژاد امریکی مؤرخ راشد خالدی کا کہنا ہے کہ یہ جنگ اسرائیل سے ہونے والی اس نقل مکانی سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوئی ہے، جس میں سن 1948 کے معروف نکبہ کے دوران 20,000 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
غزہ پر اسرائیلی فضائی حملوں کا سلسلہ دوسرے دن بھی جاری
خالدی نے کہا، ''مجھے نہیں لگتا کہ جدید فلسطینی تاریخ میں اس طرح کا کوئی واقعہ بھی ہوا ہے۔''
آغا خاندان کے 31 افراد کا قتل
گیارہ اکتوبر کو ایک فضائی حملے میں مغربی خان یونس میں امین الآغا کے گھر کو نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت 61 سالہ امین اپنی بیوی اور تین بیٹوں کے ساتھ دو منزلہ عمارت کے گراؤنڈ فلور پر سو رہے تھے۔ بالائی منزل پر ان کے 30 سالہ بیٹے مہند الآغا، اپنی اہلیہ ہند اور دو کمسن بچیوں، دو برس کی طالین اور ایک سال کی اصیل کے ہمراہ سکونت پزیر تھے۔ اس فضائی حملے میں ایک قریبی عمارت میں دو کزنوں سمیت خاندان کے 11 افراد ہلاک ہو گئے۔
حملے کے فوراً بعد وہاں پہنچنے والے ان کے ایک کزن جاسر الآغا نے کہا، ''یہ اب گھر نہیں، بلکہ ریت کا ایک ڈھیر تھا۔''
14 اکتوبر کے روز ایک اسرائیلی بم نے خمیس الآغا کے گھر کو نشانہ بنایا، جو حماس سے منسلک ایک خیراتی ادارے میں ملازم تھے۔ وسطی خان یونس میں واقع یہ تین منزلہ عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ مرنے والوں میں 38 سالہ خمیس الآغا، ان کی بیوی، نسرین، دو بیٹے، جن کی عمریں 11 اور 13 برس کی تھیں آٹھ اور چھ برس کی دو بیٹیاں اور ان کا چھوٹا بھائی اور ان کا نو سالہ بیٹا، ایک کزن اور اس کا بیٹا بھی شامل تھا۔ صرف بھائی کی اہلیہ زندہ بچ پائیں۔
اسرائيل پر ترکی کی تنقيد نمائشی۔ ايمن الظواہری
14 نومبر کو خمیس کے دوسرے کزن عونی الآغا کے گھر کو نشانہ بنایا گیا اور اس حملے میں خان یونس کے مغربی علاقے میں واقع تین منزلہ عمارت پوری طرح سے تباہ ہو گئی۔ حقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سے وابستہ ہتھیاروں کے تفتیش کار برائن کاسٹنر نے بتایا کہ نقصان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک فضائی حملہ تھا۔
ملبے کے اوپر صرف ایک سیٹلائٹ ڈش چپکی ہوئی تھی۔ حملے میں عونی الآغا کی 64 سالہ اہلیہ سمیعہ ہلاک ہو گئیں۔ اس کے ساتھ ہی ان کے چار بیٹے، جن کی عمریں 42 اور 26 برس کے درمیان تھیں، ان کی 41 سالہ بیٹی رامہ، ان کے شوہر اور دو بیٹے، جن کی عمریں 18 اور 16 برس کی تھیں وہ بھی مارے گئے۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام محکمہ تعلیم میں ملازم عونی الآغا اس حملے میں محفوظ رہے۔ وہ حملے کے وقت فجر کی نماز کے لیے بیدار ہوئے تھے۔ جاسر الآغا نے بتایا کہ تین ماہ بعد رواں برس فروری میں 69 سالہ عونی الآغا بھی غالباً خاندان کے غم کی وجہ سے انتقال کر گئے۔
ایئر وارز کی ڈائریکٹر ایملی ٹرپ نے بتایا کہ ان کے تفتیش کاروں نےغزہ میں پورے خاندانوں یعنی نسلوں کی نسلوں کے قتل کی تفتیش کرنے میں کافی جدوجہد کی،''عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصانات کو سمجھنے کے لیے بعض اوقات ہمیں خاندانوں کا پورا شجرہ نسب تک تیار کرنا پڑا۔''
ابو نجا خاندان کے بیس افراد ہلاک
سات اکتوبر کو جنوبی رفح میں اسرائیلی طیاروں نے ابو نجا اور مادی خاندانوں کے گھروں کو بھی نشانہ بنایا اور آناً فانا ًابو نجا خاندان کے 20 افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ ان میں دو حاملہ خواتین اور آٹھ بچے شامل تھے۔
فضائی حملوں میں 78 سالہ دادی ان کی پوتی اور ان کے بچے بھی مارے گئے۔ ایئر وارز کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں سے ایک کی شناخت فیس بک پر ''مجاہد'' یا ''جنگجو'' کے طور پر بھی کی گئی۔ البتہ حملے میں اس کی بیوی، حاملہ بہن اور اس کی دو سالہ بیٹی بھی ہلاک ہو گئی۔
بین الاقوامی قوانین کے تحت کسی بھی ایسے جنگجو کو مارنا جو لڑائی میں حصہ نہ لے رہا ہو اور عام شہریوں سے بھری ہوئی جگہ پر ہو، تو اسے جنگی قوانین کی خلاف ورزی سمجھا جاتا ہے۔
تارزئی اور سوری خاندان کے بیس افراد ہلاک
اسرائیل کے فضائی حملوں میں غزہ شہر میں ایک چرچ کی عمارت بھی تباہ ہو گئی تھی، جہاں سینکڑوں بے گھر افراد نے پناہ لے رکھی تھی۔ 19 اکتوبر کے روز ہونے والے اس حملے میں غزہ میں گھٹتی ہوئی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے تارزئی اور سوری خاندانوں کے 20 افراد ہلاک ہوئے، جن میں کم از کم سات بچے بھی شامل تھے۔ رمیز السوری نے اپنے تینوں بچوں اور بیوی کو کھو دیا۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس نے حماس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر پر حملہ کیا اور اس نے گروپ پر عام شہریوں میں سرایت کرنے کا الزام لگایا۔ البتہ اس نے تسلیم کیا کہ چرچ کی دیوار کو نقصان پہنچا ہے۔
چونکہ اسرائیلی فوج نے اسے متعلق ویڈیوز کو حذف کر دیا تھا، اس لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس مقام کا دورہ کیا اور دستیاب ویڈیوز کا تجزیہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک فضائی حملہ تھا۔ ایمنسٹی نے کہا کہ اگر کسی فوجی ہدف کی نشاندہی بھی کی گئی تو بھی یہ ''لاپرواہی تھی اور اس لیے یہ جنگی جرم کے مترادف ہے۔''
جبالیہ مہاجر کیمپ میں 130 سے زائد افراد ہلاک
اس جنگ کے دوران اکتیس اکتوبر کو اسرائیلی بمباری سب سے مہلک ثابت ہوئی۔ جبالیہ پناہ گزین کیمپ غزہ کے سب سے زیادہ گنجان آباد علاقوں میں سے ایک ہے، جو سات اکتوبر کے بعد سے متعدد بار نشانہ بن چکا ہے۔ ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد ابھی تک معلوم نہیں ہے کیونکہ بہت سے اب بھی ملبے کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔
ایئر وارز نے اس میں 11 خاندانوں کے 112 شہریوں کو ہلاک کیے جانے کی تصدیق کی، جن میں 69 بچے اور 22 خواتین بھی شامل ہیں۔ اس میں اوکاشا اورابوالقومسان خاندانوں کے کم از کم 47 افراد بھی مارے گئے۔ اے پی نے القومسان خاندان کے اضافی 17 افراد کی نشاندہی بھی کی، جن میں چچا، باپ اور ان کے بچے ہلاک ہوئے۔
ان بم حملوں میں ایک سو میٹر سے زیادہ تک پھیلے ہوئے علاقے میں کئی گڑھے پڑ گئے اورمتعدد عمارتیں منہدم ہو گئیں۔ اسرائیل نے کہا کہ اس نے حماس کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر پر حملہ کر کے وہاں موجود حماس کی ایک بٹالین کے کمانڈر کو نشانہ بنایا۔
اسی طرح 19 دسمبر کو ایک اسرائیلی فضائی حملے نے سالم خاندان کے بے گھر افراد کے ایک اور گروپ کو نشانہ بنایا، جو رمل کے ایک گھر میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ حملے سے وہاں ایک گہرا گڑھا پڑ گیا لیکن آس پاس کی عمارتوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ زندہ بچ جانے والوں نے بتایا کہ ٹینکوں کو ملبے پر چڑھا دیا گیا اور سالم خاندان سے تعلق رکھنے والے کم از کم 90 افراد ہلاک ہو ئے۔
اس حملے میں بچ جانے والے محمد سالم نے بتایا، ''میں نے اپنے چچا اور کزنوں کی لاشیں فرش پر بکھری ہوئی دیکھی ہیں۔ ہم صرف ان کے شناختی کارڈز سے لاشوں کی شناخت کر سکے۔ وہ صرف گوشت کا ڈھیر تھیں۔''
مغازی مہاجر کیمپ میں کم ازکم 106افراد ہلاک
عینی شاہدین کے مطابق مطابق اسرائیلی فون نے 24 دسمبر کو مغازی مہاجر کیمپ میں کم از کم چار مکانات پر براہ راست حملہ کیا۔ بعد میں اس حملے میں مارے گئے افراد کے جسمانی اعضاء آس پاس کے علاقوں میں بکھرے ہوئے پائے گئے۔
اے پی نےاس حملے کے بعد مقامی ہسپتال کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کی، جس کے مطابق 106 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل کا کہنا تھا کہ وہ حماس کے عسکریت پسندوں کو نشانہ بنا رہا تھا اور غلطی سے ملحقہ دو عمارتوں کو نشانہ بنا دیا۔
اسرائیل نے اس غلط حملے کے بارے میں وضاحت کرتےہوئے کہا، ''ان لوگوں کو چوٹ پہنچانے پر افسوس ہے۔'' ایک اسرائیلی فوجی اہلکار نے ملکی سرکاری ٹی وی کان کو بتایا کہ حملے میں غلط ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا البتہ اس فوجی اہلکار نے اس بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں۔
اے پی نے اس طرح کے کئی واقعات کی مزید تفصیلات جمع کی ہیں، جن میں اسرائیلی حملوں میں غزہ کے ایک ہی خاندان کے بے گناہ درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے پی)