اسرائیلی فلسطینی بات چیت ٹھوس نتائج کے بغیر اختتام پذیر
4 جنوری 2012منگل کو اردن کے دارالحکومت میں اِن مذاکرات کے میزبان وزیر خارجہ ناصر جودہ نے کسی قدر امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’اہم چیز یہ ہے کہ آج دونوں فریق براہ راست ایک دوسرے سے ملے ہیں۔‘‘ اُنہوں نے ایک جانب یہ اعتراف کیا کہ پندرہ ماہ کے بعد ہونے والے اِس پہلے براہِ راست اسرائیلی فلسطینی رابطے کے کوئی ’ٹھوس‘ نتائج برآمد نہیں ہوئے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ فریقین کے درمیان مزید ملاقاتوں پر اتفاقِ رائے ہوا ہے، جن میں سے کچھ خفیہ بھی ہو سکتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے اِس پیشرفت کو سراہا گیا ہے جبکہ امریکہ نے اِسے ایک ’مثبت پیشرفت‘ قرار دیتے ہوئے اِس کا خیر مقدم کیا ہے۔ امن مذاکرات کا آخری دور ستمبر سن 2010ء میں مغربی اردن اور یروشلم میں اسرائیلی بستیوں کی تعمیر و توسیع پر پیدا ہونے والے تنازعے کے باعث منقطع ہو گیا تھا۔ اب بھی مذاکرات کی بحالی کے لیے فلسطینیوں کی شرط یہی ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع کا کام رُکنا چاہیے جبکہ اسرائیل کا مؤقف یہ ہے کہ امن مذاکرات بغیر کسی قسم کی پیشگی شرائط کے بحال ہونے چاہئیں۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مکالمت کی بحالی اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں فریق اپنے عشروں پرانے تنازعے کے حل کے سلسلے میں اہم معاملات پر ابھی بھی کسی اتفاقِ رائے کی منزل سے بہت دور ہیں۔
منگل کی صبح فلسطینی صدر محمود عباس نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیل نے امن مذاکرات کی بحالی کے لیے فلسطینی شرائط قبول نہ کیں اور باقاعدہ مذاکرات کا سلسلہ 26 جنوری تک بحال نہ ہوا تو ’سخت اقدامات‘ کیے جائیں گے۔ ستمبر میں چہار فریقی مشرقِ وُسطیٰ گروپ نے دونوں فریقوں کی جانب سے تجاویز کے لیے چار ماہ کا ہدف مقرر کیا تھا اور فلسطینیوں کے خیال میں یہ مدت چھبیس جنوری کو ختم ہو رہی ہے۔
عمان میں منگل کا یہ اجتماع امریکہ، یورپی یونین، روس اور امریکہ پر مشتمل اِسی چہار فریقی گروپ کے زیر اہتمام منعقد ہوا۔ اِس گروپ کو امید ہے کہ 2012ء کے اواخر تک اسرائیلی فلسطینی تنازعے کا کوئی حتمی تصفیہ سامنے آ جائے گا۔
منگل کو اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ایلچی اسحاق مولخو اور اُن کے فلسطینی ہم منصب صائب عریقات کے درمیان بات چیت کے کئی اَدوار ہوئے۔ اُردن کے وزیر خارجہ ناصر جودہ کے مطابق ان ملاقاتوں میں فلسطینیوں نے مستقبل کی سرحدوں اور سکیورٹی معاملات کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کیں جبکہ مولخو نے وعدہ کیا کہ آئندہ چند روز میں وہ اِن تجاویز پر اسرائیلی حکومت کے جواب سے آگاہ کریں گے۔
یہ ملاقات ایک ایسے وقت پر ہوئی ہے، جب فلسطینی صدر عباس عسکریت پسند تنظیم حماس کے ساتھ مفاہمت کے لیے کوشاں ہیں۔ اسرائیل نے تاہم خبردار کیا ہے کہ وہ ایسی فلسطینی حکومت کے ساتھ مذاکرات ہی نہیں کرے گا ، جس میں حماس شامل ہو گی۔ اسرائیل حماس کو دہشت گرد تنظیم خیال کرتا ہے۔
اُردن کے شاہ عبد اللہ اسرائیل اور فلسطینیوں پر امن مذاکرات کے سلسلے کی بحالی کے لیے زور دے رہے ہیں۔ شاہ عبداللہ مشرقِ وُسطیٰ میں اسلامی گروپوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان ہیں اور اُنہیں ڈر ہے کہ ان مذاکرات کے آئندہ بھی تعطل کا شکار رہنے کی صورت میں انتہا پسندوں کے ہاتھ مضبوط ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ: ایسوسی ایٹڈ پریس / امجد علی
ادارت: مقبول ملک