اسرائیلی وزیر اعظم نے یہودی آباد کاری کا نیا منصوبہ مسترد کر دیا
13 نومبر 2013خبر رساں ادارے اے پی نے تل ابیب سے موصول ہونے والی اطلاعات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ہاؤسنگ منسٹری کی طرف سے پیش کیے گئے ایک ایسے منصوبے کو مسترد کر دیا ہے، جس کے تحت مغربی اردن میں تقریباﹰ بیس ہزار نئے مکانات تعمیر کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ نیتن یاہو کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق انہوں نے ہاؤسنگ منسٹر اُوری آریل کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ وہ اس منصوبے پر نظر ثانی کریں۔
نیتن یاہو کے بقول وہ ایک ایسے وقت میں بین الاقوامی برداری سے کوئی غیر ضروری تصادم نہیں چاہتے ہیں، جب وہ عالمی طاقتوں اور ایران کے مابین جاری جوہری مذاکرات میں ایک ’مناسب ڈیل‘ کے لیے دلالت کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ یہودی آباد کاری کی حامی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اُوری آریل نے یہ منصوبہ کسی مشاورت کے بغیر ہی تیار کیا تھا۔ نیتن یاہو کے بقول آریل نے ان کی درخواست تسلیم کر لی ہے اور اب وزارت اس منصوبے پر دوبارہ غور کرے گی۔
منگل کے دن ہاؤسنگ منسٹری کی طرف سے عام کیے جانے والے اس منصوبے پر فلسطینی اتھارٹی اور امریکی حکام نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ متنازعہ علاقوں میں یہودی آبادکاری اسرائیلی فلسطینی امن مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کی جاتی ہے۔ اسی تنازعے کے باعث فلسطینی اتھارٹی نے ماضی میں امن مذاکرات میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔
اس تازہ پیشرفت پر فلسطینی اعلیٰ مذاکرت کار صائب ایرکات نے فوری طور پر امریکا، روس، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور عرب لیگ سے رابطہ کر کے اپنے شدید تحفظات کا اظہار بھی کیا۔ صائب ایرکات کے بقول، ’’میں نے انہیں مطلع کیا ہے کہ اگر اسرائیل اپنے اس فیصلے پر عملدرآمد کرتا ہے تو اس کا مطلب ہو گا کہ مذاکرات اور امن عمل ختم ہو گیا ہے۔‘‘
ادھر امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان جینیفر ساکی نے کہا ہے کہ واشنگٹن حکومت اس اسرائیلی اعلان پر تعجب کا شکار ہو گئی ہے اور اس نے اس حوالے سے اسرائیل سے مزید تفصیلات طلب کی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’نئے مکانات کی تعمیر کے معاملے پر ہماری پوزیشن بالکل واضح ہے۔ ہم اس عمل کے تسلسل کے جائز ہونے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ ہم اطراف پر زور دیتے ہیں کہ وہ مذاکراتی عمل کو مثبت بنانے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔‘‘
تقریباﹰ پانچ برس کے تعطل کے بعد امریکی کوششوں کے نتیجے میں ابھی جولائی میں ہی مشرق وسطیٰ امن مذاکرات بحال ہوئے ہیں۔ واشنگٹن حکومت کے دباؤ کی وجہ سے فلسطینی اتھارٹی نے متنازعہ علاقوں میں یہودی آبادی کے پرانے منصوبہ جات کو روک دینے کے مطالبے کو واپس لے لیا تھا۔ ان مذاکرات کی بحالی اور خیر سگالی کے طور پر اسرائیل نے 104 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا تھا۔