اسقاط حمل کے قانون میں نرمی کا فیصلہ
8 اگست 2019نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں جو اسقاط حمل کا جو بل پیش کیا گیا ہے، اس کے مطابق کوئی بھی عورت حمل ٹھہرنے کے ابتدائی بیس ہفتوں کے دوران اسے گرائے جانے کے حوالے سے خصوصی کلینکس سے رجوع کر سکتی ہیں۔ نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں اس بل کی پہلی رائے شماری میں چورانوے اراکین نے حمایت کی اور تیئیس نے مخالفت میں ووٹ دیا۔
نیوزی لینڈ میں اس وقت اسقاط حمل ایک جرم ہے۔ یہ صرف اُسی صورت میں قانون طور پر جائز تسلیم کیا جاتا ہے جب معالجین کو یقین ہو جائے کہ کسی حاملہ عورت کی جان کو شدید خطرات لاحق ہیں اور حمل نہ گرانے سے حاملہ کی ذہنی حالت متاثر ہو سکتی ہے۔ ایسے صورت میں کم از کم دو ڈاکٹروں یا ماہرین کی رائے کا ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اسقاط حمل کا یہ سخت قانون سن 1977 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ مقامی سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون کی موجودگی میں بھی اسقاط حمل کا سلسلہ جاری رہا۔ اٹھانوے فیصد کیسوں مین حمل کو گرانے کے لیے حاملہ خواتین کی جان کو خطرات یا ذہنی پیچیدگیوں کے پیدا ہونے کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق سن 2018 کے دوران نیوزی لینڈ میں ہر ایک ہزار خواتین میں سے 13.5 فیصد حاملہ خواتین کے حمل گرائے گئے۔ حمل گرانے والی خواتین کی عمریں چودہ سے چوالیس برس کے درمیان تھیں۔ نیوزی لینڈ میں اسقاط حمل کی یہ تعداد جرمنی (7.1) سے دوگنا رہی اور امریکا کے مساوی تھی۔
پارلیمنٹ میں پیش کردہ اسقاط حمل کے مجوزہ بل کو حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد پہلے سے موجود اسقاط حمل کی رکاوٹوں کو دور کر دیا جائے گا۔ نئے بل کی منظوری کے بعد حمل ٹھہرنے کے بعد ابتدائی بیس ہفتوں کے دوران اسے گرایا جا سکے گا۔ اس بل کے لیے کسی سیاسی پارٹی کو مجبور نہیں کیا گیا بلکہ اراکین کو آزادی کے ساتھ ضمیر کے مطابق ووٹ دینے کو کہا گیا۔
نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن اس مجوزہ بل کی حمایت کر رہی ہیں۔ ان کے مطابق اس قانون کی منظوری کے بعد کوئی خاتون اپنے حمل کو گرانے کے لیے جھوٹ کا سہارا نہیں لے گی۔ موجودہ قانون کے تحت کوئی عورت سچ بول کر حمل گرانا چاہتی ہے تو وہ مجرم قرار دی جاتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیا قانون ایک عورت کے وقار اور اُن کے حقوق کا ترجمان ہے۔
ع ح، ع ب، ڈی پی اے⁄ نیوز ایجنسیاں