اسلام آباد: ’سیو دا چلڈرن‘ کو دفتر کھولنے کی اجازت
24 جون 2015’سیو دا چلڈرن‘ نے دفاتر دوبارہ کھولنے کی اجازت ملنے پر اس حکومتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امدادی تنظیم پاکستان میں بچوں کی فلاح وبہبود کے اپنے منصوبے جاری رکھے گی۔
آج بدھ کے روز اسسٹنٹ کمشنر سٹی کامران چیمہ نے اسلام آباد کے سیکٹر F-6/2 میں مارگلہ روڈ پر قائم اس تنظیم کے دفتر کو ’ڈی سیل‘ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے ذرائع ابلاغ سے کوئی گفتگو کرنے سے گریز کیا۔ تاہم باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ نے ’سیو دا چلڈرن‘ کا دفتر ملکی وزارت داخلہ کے زبانی حکم پر دوبارہ کھولا۔
’سیو دا چلڈرن‘ کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں خصوصی طور پر وزیر داخلہ چوہدری نثار کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ ’سیو دا چلڈرن‘ پاکستانی ریاست کی دشمن نہیں اور یہ کہ یہ تنظیم حکومت پاکستان کے پاس رجسٹرڈ ہے اورگزشتہ 35 برسوں سے ملک میں کام کر رہی ہے۔ بیان میں چوہدری نثار کے 16 جون کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستانی وزیر داخلہ نے تسلیم کیا تھا کہ ’سیو دا چلڈرن‘ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اور یہ غیر سرکاری تنظیم پاکستان میں باوقار طریقے سے کام کر رہی ہے۔
’سیو دا چلڈرن‘ نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ کے مذکورہ بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس تنظیم نے حکومت پاکستان کے ساتھ طے شدہ طریقہ کار کے تحت لاکھوں بچوں کو اپنی خدمات مہیا کیں۔ بیان کے مطابق ’سیو دا چلڈرن‘ دنیا بھر میں گزشتہ ایک صدی سے بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہے اور اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے 120 ممالک میں اس تنظیم کے دفاتر قائم ہیں۔
اس غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان میں اس کا کوئی غیر ملکی سٹاف ممبر موجود نہیں اور اس کے مخلتف منصوبوں میں کام کرنے والے پاکستانی کارکنوں کی تعداد 1200 ہے جو تمام قانون کا احترام کرنے والے شہری ہیں۔ اس تنظیم کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں 40 لاکھ بچے براہ راست جبکہ ایک کروڑ 40 لاکھ افراد بالواسطہ طور پر اس کے فلاحی کاموں سے مستفید ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ حکومت پاکستان نے مبینہ طور پر ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کر کے 11 جون کو ملک بھر میں ’سیو دا چلڈرن‘ کے دفاتر سربمہر کر کے اس کے غیر ملکی کارکنوں کو پندرہ دن کے اندر اندر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا تھا۔
اس موقع پر پاکستانی وزیر داخلہ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ غیر سرکاری تنظیموں کو کھلی چھوٹ نہیں دی جا سکتی اور حکومت ان غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق نئی پالیسی وضع کر رہی ہے۔ بعد میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کو سکیورٹی کے حوالے سے حساس علاقوں میں کام کرنے سے روک دیا گیا ہے اور ان علاقوں میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے علاوہ گلگت بلتستان بھی شامل ہیں۔
اس موقع پر چوہدری نثار کا کہنا تھا، ’’پاکستان میں کام کرنے والی ہزاروں غیر سرکاری تنظیموں میں سے 38 سے لے کر 40 فیصد تک تنظیمیں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ہزاروں این جی اوز کا کوئی ڈیٹا بینک نہیں ہے، ان کی کوئی جانچ پڑتال یا احتساب نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت پچھلے ایک سال سے اس پر کام کر رہی ہے۔‘‘
وزیر داخلہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’سیو دا چلڈرن‘ پر لگائی جانے والی پابندی برقرار ہے تاہم پاکستان میں اس کے دفاتر کی تعداد 70 سے کم کر کے 13 کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تنظیم سن 1997ء سے پاکستان میں رجسٹرڈ ہے تاہم سن 2012ء میں ایک واقعے کے بعد خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ اس تنظیم کے حق میں نہیں تھی تاہم اس وقت کی حکومت نے اس تنظیم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔
واضح رہے کہ اسی تنظیم سے وابستہ رہنے والے ڈاکٹر شکیل آفریدی اس وقت بھی پاکستانی حکام کی حراست میں ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے 2011ء میں ایبٹ آباد میں دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی معاونت کی تھی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہےکہ پاکستانی وزارت داخلہ کے ’سیو دا چلڈرن‘ کے خلاف پہلے انتہائی سخت موقف اور پھر اچانک اسے دوبارہ اپنے دفاتر کھولنے کی اجازت دیے جانے کے پیچھے پاکستان میں کام کرنے والی دیگر بین الاقوامی این جی اوز اور امدادی اداروں کا دباؤ ہے۔ ان تنظیموں کی رائے میں کسی ایک بھی این جی او کے خلاف اس قسم کی کارروائی سے ان کے اپنے کارکنوں کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ان کے فلاحی منصوبے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔