اسلام آباد میں ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے شہری پریشان
28 مئی 2023زیادہ پرانی بات نہیں جب لاہور اور کراچی کے مکین اسٹریٹ کرائم کے معاملے میں اسلام آباد کے محفوظ ماحول کو رشک سے دیکھا کرتے تھے۔ ایسا نہیں کہ تب شہر اقتدار چوری چکاری اور ڈکیتی جیسے جرائم سے مکمل پاک تھا مگر شہریوں کے مطابق یہ خوف زندگی کا حصہ نہ تھا کہ کب کوئی راستہ روک کر پستول تان لے اور سب کچھ چھین کر چلتا بنے۔
اسلام آباد کے سماجی حلقوں اور سوشل میڈیا پر اب اکثر راہ چلتے پرس اور موبائل سنیچنگ کے واقعات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں اسٹریٹ کرائم بڑھنے کی وجوہات کیا ہیں اور اس سے عام شہریوں کی زندگی کیسے متاثر ہو رہی ہے۔
ایک سال میں ساڑھے دس ہزار مقدمات
انگریزی کے معروف اخبار بزنس ریکارڈر میں 26 مارچ کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں اسلام آباد میں اسٹریٹ کرائم کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق،”محض ایک ہفتے کے دوران شہر کے مختلف علاقوں سے مسلح افراد نے 45 موبائل فون چھینے ہیں جبکہ اس دوران شہریوں کو 78 گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں سے محروم ہونا پڑا۔"
بزنس ریکارڈر کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایک ہفتے کے دوران شہر کے مختلف تھانوں میں ”ڈکیتی کے 12، موبائل چھیننے کے 45، کار اور موٹر سائیکل لفٹنگ کے بالترتیب 14 اور 64 مقدمات درج ہوئے۔"
اسی طرح اگر گذشتہ برس کے اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو وفاقی پولیس کی ریکارڈ بک کے مطابق 2022 میں 10 ہزار 500 سے زائد مقدمات درج ہوئے جن میں شہری مسلح ڈکیتی، چوری، سٹریٹ کرائم اور دیگر وارداتوں میں 4 ارب روپے کے سامان اور نقدی سے محروم ہوئے۔
چند ہفتے قبل وزیر مملکت برائے داخلہ امور عبدالرحمن کانجو نے بھی قومی اسمبلی میں تسلیم کیا کہ اسلام آباد میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے۔
اسلام آباد آئی نائن سیکٹر کے ایک رہائشی ستر سالہ جنید ملک نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا،”میرا بچپن، لڑکپن اور جوانی اسی شہر کی گلیوں میں گزرے۔ میں تقریباً تین دہائیوں تک روزانہ منڈی موڑ سے رات دو بجے پیدل گھر آتا رہا۔ اس دوران میرے ساتھ ڈکیتی کا کوئی واقعہ پیش آیا نہ کبھی ایسا سنا۔ ڈکیتی کا عفریت اسلام آباد میں پرانا نہیں مگر اب تیزی سے پھیل رہا ہے۔"
جرائم کی شرح میں اضافے کی وجوہات
اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی احمد اعجازنے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں چوری اور ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی وجہ غیر قانونی افغان مہاجرین ہیں۔
اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد بلوچ کا حوالہ دیا، جنہوں نے چند روز قبل میڈیا کو بتایا تھا کہ اسلام آباد میں کچھ چھوٹے چھوٹے افغان گروہ موجود ہیں جو عام طور پر اس طرح کی وارداتوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
اس پولیس ترجمان کا مزید کہنا تھا، ”جب شہریوں سے چھینے گئے موبائل فونز کی لوکیشن چیک کی جاتی ہے تو ان میں سے زیادہ تر کی موجودگی افغانستان میں پائی جاتی ہے۔"
بائیں بازو کی ایک متحرک سماجی کارکن ڈاکٹر شائستہ خٹک احمد اعجاز کے موقف سے اتفاق کرتی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ ان کے مطابق ”ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتوں کو موجودہ ملکی صورتحال سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری روز بروز بڑھ رہی ہے۔ لوگ بھیک نہ مانگیں یا ڈاکے نہ ڈالیں تو کیا کریں۔ ریاست تو جیسے موجود ہی نہیں۔"
جوانی کے تین سال بسترپر
ڈکیتی کی وارداتوں کا انتہائی تاریک پہلو اسلحے کا استعمال ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے وقاص کو چند سال قبل موبائل سنیچنگ کے دوران ایسے ہی ایک بھیانک تجربے سے گزرنا پڑا۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں ”میں دوست کے ساتھ گلی میں واک کے لیے نکلا ہی تھا کہ دو موٹر سائیکل سوار آئے اور موبائل اور نقدی چھین کر فرار ہونے لگے۔ میں سولہ سترہ سال کا لڑکا جذبات سے مغلوب ہو کر ان پر جھپٹ پڑا۔ ان میں سے ایک نے پستول سے فائرنگ کر دی۔ گولی میرے کولہے کی ہڈی چیرتی ہوئی ٹانگ میں اتر گئی۔ اس کے بعد جوانی کے تین سال بستر کھا گیا۔"
وہ کہتے ہیں ”اس حادثے نے میری زندگی ہمیشہ کے لیے بدل دی۔ بعد میں ٹھیک ہو گیا لیکن ڈاکٹروں نے نیچے بیٹھنے سے ہمیشہ کے لیے منع کر دیا۔ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے جب رشتہ داروں کے ساتھ کسی دعوت میں شریک ہوں۔ مجھے سب سے الگ اوپر بیٹھ کر کھانا پڑتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے میں باقیوں جیسا نہیں ہوں۔ یہاں تک کہ ایک بار میں نے امی سے کہا یا مجھے اکیلا میرے حال پہ چھوڑ دیں یا سب کی طرح ٹریٹ کیا کریں۔"
وقاص پوری فیملی خاص طور پر اپنی ماں کے بہت شکرگزار ہیں جنہوں نے بھرپور تعاون کیا جبکہ ”ریاست تو پلٹ کر نہیں پوچھتی کہ آپ کون ہیں کیا ہیں۔ ایف آئی آر درج ہوئی تھی لیکن ایک دن میرے والد نے تنگ آ کر کہہ دیا کہ میں بیٹے کے علاج پر پیسے خرچ کروں یا مقدمے پر۔ اس کے بعد متعلقہ پولیس افسر کا کوئی سراغ نہیں ملا۔"
خوف زندگی کا مستقل حصہ
ماہر نفسیات ڈاکٹر اسامہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ایسے واقعات نفسیاتی طور پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں، ”آپ کو فوری طور پر احساس ہوتا ہے کہ آپ کی کوئی پرسنل اسپیس نہیں، آپ کہیں محفوظ نہیں۔ عموماً ایک خوف آپ کی زندگی کا مستقل حصہ بن جاتا ہے۔ کوئی راستہ پوچھنے کے لیے قریب آئے تو لگتا ہے موبائل چھیننے والا ہے۔ جس شہر میں لوگ واک یا تفریح کے لیے شام کو پارک میں جانا چھوڑ دیں وہاں لوگوں کی ذہنی صحت کا کیا حال ہو گا۔"
صحافی احمد اعجازکا کہنا ہے کہ ان سمیت ان کے بہت سے دوستوں نے شام کو گھروں سے باہر نکلنا ترک کر دیا ہے۔ ان کے مطابق، ''آئے روز کسی نہ کسی ایسی واردات کا سنتے ہیں۔ اگر وفاقی دارالحکومت کا یہ حال ہے تو باقی ملک میں کیا کچھ نہیں ہو رہا ہو گا۔"