1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاک افغان تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی

16 ستمبر 2022

پاکستان اور افغانستان سرحد جھڑپیں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ امریکہ کی جانب سے افغانستان پر حملے کے بعد سے متعدد مرتبہ افغان نیشنل آرمی اور پاکستانی فوج کے درمیان سرحدی علاقوں میں چھوٹی موٹی جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4GzJY
Grenze Pakistan - Afghanistan
تصویر: Ullah Khan/DW

منگل کے روز پاکستان کے تین سپاہی ایک دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اسلام آباد کے مطابق یہ حملہ افغان سزمین سے ہوا تھا۔ اس حملے کے بعد سے کابل اور اسلام آباد کے درمیان دعوے اور رد دعوے کا ایک سلسلہ چل رہا ہے جس سے کئی حلقوں میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے رواں ہفتے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلام آباد نے ان تین سپاہیوں کی ہلاکتوں کا مسئلہ افغانستان کے ساتھ اٹھایا ہے۔ دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ افغانستان سے کہا گیا ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کو روکے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔

چمن کے مقام پر پاکستان افغانستان سرحد کھل گئی

تاہم دوسری طرف افغان طالبان کے ایک ترجمان بلال کریمی نے اسی ہفتے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان دونوں ملکوں کی مشترکہ سرحد پر ایک ملٹری پوسٹ بنانے کی کوشش کر رہا تھا اور جب افغان سپاہی پاکستانی سپاہیوں سے بات چیت کرنے کے لیے گئے تو ان پر فائرنگ کردی گئی۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں دونوں اطراف ممکنہ طور پر ہلاکتیں ہوئیں۔

یہ واقعہ پاکستان کے قبائلی ضلع کرم اور افغانستان کے صوبے پکتیا کے درمیان سرحدی علاقے میں پیش آیا۔

یہ صرف کوئی ایک مسئلہ نہیں جس پر کابل اور اسلام کے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں۔ تیرہ ستمبر کو انگریزی روزنامہ دی نیوز نے یہ انکشاف کیا کہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغان طالبان کو ایک خط میں کہا ہے کہ وہ مولانا مسعود اظہر کو تلاش کر کے رپورٹ کرے اور انہیں گرفتار کریں۔

 مولانا مسعود اظہر کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ ہیں۔ اس تنظیم پر یہ الزام ہے کہ وہ بھارت میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہے۔ اسی اخبار نے چودہ ستمبر کو یہ خبر بھی جاری کی تھی کہ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اپنے بیان میں کہا کہ مولانا مسعود اظہر اس وقت افغانستان میں نہیں ہیں بلکہ وہ پاکستان میں موجود ہیں۔

ان واقعات اور بیانات سے کئی حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اتنے دوستانہ نہیں ہیں جتنے کہ ماضی میں ہوا کرتے تھے۔

افغان افواج اور طالبان جنگجوؤں کے مابین جھڑپ

طالبان کی صفوں میں پاکستان مخالف عناصر

 لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار جنرل غلام مصطفی کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ افغان طالبان کے مابین کچھ ایسے عناصر ہیں جو پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں چاہتے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حالات اور واقعات سے تو یہی لگتا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان کشیدگی ہے جو مزید آگے بڑھ سکتی ہے۔‘‘

جنرل غلام مصطفیٰ کے مطابق اس کے علاوہ سابق حکومت کی باقیات بھی بھارت اور دوسرے پاکستان دشمن عناصر کے ساتھ مل کر افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

کم ہوتا ہوا اثر رسوخ

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ ماضی میں چوںکہ افغان طالبان حالت جنگ میں تھے اور ان کے کئی رہنماؤں نے اور ان کے گھرانوں نے پاکستان میں پناہ لی ہوئی تھی اس لیے وہ پاکستان پر بہت زیادہ انحصار کرتے تھے لیکن اب یہ انحصار بہت حد تک کم ہوگیا ہے۔

 اسلام آباد کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی سیاسی مبصر نور فاطمہ کا کہنا ہے کہ افغان سرزمین پراسلام آباد کا اثر رسوخ کم ہورہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اب کیونکہ طالبان اقتدار میں ہیں اس لیے چین، روس، ایران اور دوسرے ممالک بھی طالبان سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ پہلے طالبان کے لیے صرف پاکستان ہی ایک واحد آپشن تھا لیکن اب ان کے سامنے بہت سارے آپشنز ہیں۔ اس لیے اب ان کی نظر میں پاکستان کی وہ قدر اور اہمیت نہیں رہی، جو ماضی میں ہوتی ہے۔‘‘

آزادانہ خارجہ پالیسی

 کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ افغان طالبان اب پین اسلامک فکر سے نکل کر قوم پرست بن گئے ہیں اور ایک آزادانہ خارجہ پالیسی اپنا رہے ہیں۔ اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے  عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجیم الدین کا کہنا ہے کہ طالبان اب ایک قوم پرست قوت ہیں جو اپنے ملک کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر اپنی خارجہ پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اب پاکستان طالبان کے لیے خطے میں بہت سارے ممالک میں سے ایک ملک ہے۔ افغان طالبان ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانا چاہتے ہیں، جس میں ان کے ملکی مفادات کی عکاسی ہو اور وہ پاکستان یا کسی اور ملک سے زیادہ اپنے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ بہت ساری ایسی باتیں جن کو وہ اپنے مفادات میں نہیں سمجھتے تھے ان کو وہ تسلیم نہیں کرتے چاہے وہ باتیں پاکستان ہی کی طرف سے کیوں نا ہوں۔‘‘

افغانستان سے متصل سرحدوں پر باڑ، ٹی ٹی پی کے لیے مسئلہ؟

جھڑپوں اور کشیدگی کا سلسلہ

2007 میں پاکستان اور افغان نیشنل آرمی کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ ہوئی، جس میں تین پاکستانی سپاہی زخمی ہوئے تھے اور ذرائع ابلاغ کے مطابق کچھ افغان نیشنل آرمی کے سپاہی بھی ہلاک اور زخمی ہوئے تھے۔ یہ جھڑپ پاکستان کے قبائلی علاقے کرم ایجنسی اور افغانستان کے صوبے پکتیا کے درمیان سرحدی علاقے میں ہوئی تھی۔فروری، جون اور جولائی 2011 میں بھی دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سرحدی علاقوں میں چھوٹی موٹی چھڑپیں ہوئی تھیں۔ بعد ازاں اگست ستمبر اور اکتوبر میں بھی دونوں ممالک کی افواج کے درمیان چھوٹی موٹی سرحدیں لڑائیں ہوئیں۔ اس فہرست میں جنوری 2012، مئی اور جون دوہزار تیرہ، جون اور دسمبر دوہزار چودہ، اگست دوہزار پندرہ، جون 2016 ،فروری، مارچ اور مئی دوہزار سترہ، اپریل 2018، فروری، اپریل اور مئی 2019 اور ستمبر دوہزار بیس کی چھٹرپیں بھی شامل ہیں۔