اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ: اسٹیبلشمنٹ کے لیے جھٹکا ؟
21 نومبر 2023اس نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دیے جانے پر پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان بہت خوش ہیں جبکہ سیاست دانوں اور تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ، مسلم لیگ نون اور دوسری عمران مخالف قوتوں کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے۔
واضح رہے کہ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کی ایک دو رکنی بینچ نے حکومت کے اس نوٹیفیکیشن کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے جس کے تحت سائفر کیس کی سماعت جیل کے اندر ہورہی تھی۔
انٹرا کورٹ اپیل کے اس مختصرفیصلے میں عدالت نے 29 اگست کو جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن کے حوالے سے کہا کہ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور یہ مجاز قانونی اتھارٹی کے بغیر جاری کیا گیا اور یہ کریمنل پروسیجر کوڈ کی سیکشن 352 میں جو قانونی تقاضے ہیں وہ حکومت نے اس حوالے سے پورے نہیں کیے۔
خوشی کی لہر
اس فیصلے سے پی ٹی آئی کی صفوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور پارٹی کے کارکنان شادیانے بجا رہے ہیں۔ عمران خان کے ایک معتمد خاص فیصل شیر جان نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی کے ورکرز اس وقت خوشی میں ناچ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف پارٹی کو پشاور ہائی کورٹ سے بھی تھوڑی سی ریلیف ملی ہے اور پشاور ہائی کورٹ نے تحریک انصاف کو جلسے کی اجازت نہ دینے پر الیکشن کمشنر کو بلانے کا عندیہ دیا ہے۔‘‘
تحریک انصاف کے لائرز ونگ کے رکن مرتضی حسین طوری کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کو ایک طویل عرصے بعد خوشی ملی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس فیصلے سے پارٹی کارکنان کے حوصلے بہت بلند ہوئے ہیں اور اس فیصلے کے بعد ملک کے مجموعی سیاسی ماحول پر بھی فرق پڑے گا۔‘‘
اسٹیبلشمنٹ کے لیے جھٹکا
خیال کیا جاتا ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کافی عرصے سے ایک سرد جنگ چل رہی ہے جس میں نو مئی کے بعد بہت شدت آ گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکنان کو جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے جبکہ ان کے رہنماؤں کو مبینہ طور پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پہ مجبور کیا جا رہا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ملک میں اس وقت جی ایچ کیو بہت طاقتور ہے۔ تاہم اس فیصلے کو کئی سیاستدان ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک جھٹکا قرار دے رہے ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیراعلی نواب اسلم رئیسانی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یقینا میرے خیال میں یہ اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا ہے اور اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ عدلیہ میں اب بھی کچھ ایسے ججز ہیں جو دباؤ کو قبول نہیں کر رہے۔‘‘
تجزیہ نگار اور صحافی فوزیہ کلثوم رانا کا کہنا ہے کہ یہ جھٹکا صرف اسٹیبلشمنٹ کے لیے نہیں ہے بلکہ نون لیگ کے لیے بھی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی سیاسی قوت میں مزید اضافہ ہوگا اور جو لوگ عمران خان کے دن گن چکے تھے، ان کو اب اپنی رائے بدلنا پڑے گی۔‘‘
فوزیہ کلثوم رانا کے مطابق زمینی حقائق یہ ہیں کہ عمران خان آج بھی سب سے مقبول رہنما ہیں۔
فائز عیسٰی کا امتحان
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب حکومت کو اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنا پڑے گا، جہاں کئی لوگوں کی توجہ کا مرکز جسٹس فائز عیسی ہوں گے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے پاسدار ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسویشن کی نائب صدر ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ یقینا یہ فائز عیسٰی صاحب کا بھی امتحان ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس وقت یہ تاثر ہے کہ عدلیہ پہ بہت زیادہ دباؤ ہے۔ لاہور ہائی کورٹ میں چھ مرتبے نو مئی کے ملزمان کی ضمانت کے حوالے سے بینچیں ٹوٹی ہیں۔‘‘
ربیعہ باجوہ کے مطابق ماضی میں عدالتیں فیصلے دیا کرتی تھیں چاہے وہ غلط ہوں۔ ''لیکن اب تو یہ صورتحال ہے کہ ہائی کورٹس بھی فیصلے دینے سے کترا رہی ہیں۔ ایسے میں ججوں کو قانون اور آئین کے مطابق فیصلے دینے ہوں گے جیسے کہ آج فیصلہ آیا ہے۔‘‘
حکومت کے لیے مشکل
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے معروف وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے حکومت کے لیے بہت ساری مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' قانونی طور پر حکومت ایک بار پھر نوٹیفکیشن جاری کر سکتی ہے اور ان قانونی تقاضوں کو پورا کر سکتی ہے جو کہ پہلے نوٹیفکیشن میں پورے نہیں کیے گئے تھے لیکن اگر ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوتا ہے تو اس کو پھر عدالت میں چیلنج کر دیا جائے گا۔‘‘
انعام الرحیم کے مطابق اب حکومت کو سپریم کورٹ سے ہی رجوع کرنا پڑے گا۔ ''اور سپریم کورٹ میں جسٹس فائز عیسی کے آنے کے بعد بہت ساری تبدیلیاں ہو گئی ہیں۔ اب یہ آسان نہیں کہ کوئی بھی اپنی مرضی سے بینچ بنوا لے اور اپنی مرضی کے فیصلے لے لے۔‘‘
فیصلہ اور عدالتی آزادی
اس فیصلے سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ عدلیہ ایک بار پھر غیر جانبداری اور آزادی کی طرف جا رہی ہے۔ اس مقدمے میں عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ صرف چند ہی ایسے جج ہیں جو آئین اور قانون کے لیے اپنے موقف پہ ڈٹے رہتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہر ایک جج کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ قانون اور آئین کے حوالے سے اپنے موقف پہ ڈٹا رہتا ہے۔ صرف کچھ انفرادی جج ہیں جو ایسا کر رہے ہیں۔‘‘
ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ صرف ایک دو فیصلوں سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ عدلیہ غیر جانبدار ہے۔ ''وکلا برادری میں یہ تاثر ہے کہ قاضی فائز عیسٰی سے جو امیدیں وابستہ کی گئی تھیں، اس سے ان کو مایوسی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ نے حال ہی میں گمشدہ افراد کے معاملے کو بنیادی حقوق کا معاملہ ماننے سے انکار کر دیا ہے جبکہ عام سیاسی کارکنان پر جو جبر ہے اس کے حوالے سے بھی عدالتیں اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہی ہیں۔‘‘