عمران خان کو جیل میں اے کلاس مہیا کی جائے، وکلا ء کی استدعا
7 اگست 2023پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے وکلاء نے پیر سات اگست کو کرپشن کے الزام میں ان کی تین سال کی سزا کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا آغاز کر دیا ہے۔ ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں عمران خان پانچ سال کے لیے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بھی نااہل قرار دیے گئے ہیں۔
پیر کے روز عمران خان کے وکلا نے توشہ خانہ کیس میں اپنے مؤکل کی سزا کی معطلی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ عدالت عظمٰی میں یہ درخواست صائمہ صفدر چوہدری نامی ایک شہری کی جانب سے دائر کی گئی۔
اس درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان کو شفاف عدالتی کارروائی کا حق مہیا نہیں کیا گیا اور یہ کہ عدالتی کارروائی انتہائی عجلت میں مکمل کر کے سزا سنائی گئی۔
آگے کیا ہو گا؟
سپریم کورٹ عمران خان کی اپیل پر ان کی سزا کالعدم کر سکتی ہے۔ اس بارے میں اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے سربراہ امتیاز گل کا کہنا ہے،''عمران خان کے خلاف کوئی ٹھوس کیس نہیں تھا، انہیں ایک تکنیکی غلطی کی وجہ سے اس سزا کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں اس سزا کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ خان کی حمایت ختم ہو رہی ہے۔ انہوں نے لکھا، ''وہ (عمران) چند سادہ لوح حامیوں کو دھوکہ دے سکتے ہے لیکن عام لوگ اب ان کی اصل فطرت کو پہچانتے ہیں۔‘‘
مئی میں اسی کیس کے سلسلے میں خان کی عارضی گرفتاری اور تین دن تک نظر بندی نے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے حامیوں کی جانب سے ُپر تشدد احتجاج کو جنم دیا تھا۔ اس کے بعد حکام کی طرف سے بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن میں پی ٹی آئی کے ہزاروں حامیوں کو پکڑا گیا، جن میں سے کچھ اب بھی جیل میں ہیں۔
اٹک منتقلی اور 'اے کلاس‘
عمران خان کے وکلا نے انہیں ڈسٹرکٹ جیل اٹک سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کرنے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے بھی رجوع کیا۔ پیر کو پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ نے اسلام آباد میں درخواست دائر کی۔اس درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عمران خان سابق وزیراعظم ہیں اُن کو جیل میں اے کلاس فراہم کی جائے۔
عدالت سے یہ استدعا بھی کی گئی ہے کہ عمران خان کی قانونی ٹیم کو جیل میں ان تک رسائی دی جائے اور یہ کہ ان کے ذاتی معالج، خاندان کے افراد اور پارٹی کے سینیئر قائدین سے بھی ملاقات کی اجازت دی جائے۔
'سیاسی مقدمہ‘
عمران خان کو ہفتے کے روز ان کے گھر زمان پارک لاہور سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں توشہ خانہ کیس میں لگے الزامات کے تحت جیل منتقل کر دیا گیا۔ عمران خان اس مقدمے کو سیاسی انتقامی کارروائی قرار دیتے ہیں۔ انہیں دارالحکومت اسلام آباد سے ساٹھ کلومیٹر مغرب میں اٹک کے تاریخی شہری میں تقریباﹰ ایک صدی قبل تعمیر کی گئی جیل میں رکھا گیا ہے۔
ہفتے کے روز توشہ خانہ کیس میں عمران خان عدالت میں موجود نہیں تھے، جب ٹرائل کورٹ کے ایک جج نے عمران خان کو بطور وزیر اعظم ملنے والے سرکاری تحائف کے سلسلے میں بدعنوانی کا مجرم قرار دیا اور انہیں تین سال قید کی سزا سنائی۔
کسی بھی مجرمانہ مقدمے میں سزا پانے والے کو پاکستان میں انتخابات لڑنے کے لیے نااہل قرار دے دیا جاتا ہے۔ اسی دوران وزیر اعظم شہباز شریف نے اتوار کو کہا کہ ممکنہ طور پر بدھ کو پارلیمنٹ اپنی مدت مکمل کرنے سے چند دن قبل معطل کر دی جائے گی۔
انتخابات میں تاخیر
اس اقدام کے نتیجے میں عبوری حکومت کو نومبر کے وسط تک انتخابات کرانے کا موقع ملے گا لیکن یہ قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ ملک کی تازہ ترین مردم شماری کے نتائج کے انتظار کی صورت میں انتخابات کے انعقاد میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایک مقامی ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نئی مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں دوبارہ کرانی ہوں گی اور یہ کہ اس سلسلے میں انتخابات میں ڈھائی ماہ تک کی تاخیر ہو سکتی ہے۔
عمران خان کے خلاف زیر التوا مقدمات
خان کی برطرفی کے بعد سے مختلف سرکاری اداروں کی جانب سے ان کے خلاف توہین عدالت سے لے کر دہشت گردی اور تشدد پر اکسانے کے الزامات کے تحت 150 سے زائد مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ قانونی چارہ جوئی کی یہ ہلچل حکومتی اتحاد کی جانب سے عمران خان کو سائیڈ لائن کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے کیونکہ عمران خان اپوزیشن لیڈر کے طور پر اپنے وفادار حامیوں کے بھاری اکثریت اکٹھی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو پاکستان کی طاقتور فوج کی پشت پناہی حاصل ہے۔
ش ر ⁄ ع ا (اے ایف پی)