اسلامک اسٹیٹ کی حمایت پر طالبان کا ترجمان برطرف
22 اکتوبر 2014یہ بات آج بدھ کے روز طالبان کے جاری کردہ ایک بیان میں کہی گئی اور کئی سینئر طالبان کمانڈروں نے بھی اس برطرفی کی تصدیق کر دی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان یا TTP کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی برطرفی اس بات کا تازہ ترین ثبوت ہے کہ 2007ء میں قائم کی گئی یہ عسکریت پسند تنظیم کس حد تک داخلی تقسیم کا شکار ہے۔ اس ممنوعہ شدت پسند تنظیم کے ارکان کے خلاف پاکستانی قبائلی علاقوں میں ملکی فوج کا آپریشن بھی جاری ہے اور حال ہی میں یہ کئی مرتبہ داخلی تقسیم اور گروپ بندیوں کے عمل سے بھی گزری ہے۔
شاہد اللہ شاہد کو ٹی ٹی پی کا ترجمان 2013ء میں بنایا گیا تھا۔ طالبان کے اس ترجمان نے، گشتہ ہفتے جاری کیے گئے ایک آڈیو پیغام میں بظاہر یہ کہا تھا کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے ان جہادیوں کے ساتھ وفاداری کا عہد کرتے ہیں، جو شام اور عراق میں وسیع تر علاقوں پر قابض ہو چکے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق اس آڈیو پیغام کی نہ تو غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق ہو سکی تھی اور نہ ہی شاہد اللہ شاہد سے ان کا رد عمل جاننے کے لیے رابطہ ہو سکا تھا۔ لیکن تحریک طالبان پاکستان کے فیس بک پیج پر جاری کردہ ایک بیان کے مطابق شاہد اللہ شاہد اب اس تحریک کے رکن نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اسی فیس بک پیج پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستانی طالبان کے رہنما مولانا فضل اللہ نے اگر کسی شخصیت کی حمایت کا عہد کر رکھا ہے، تو وہ افغان طالبان کے رہنما ملا عمر ہیں۔
اس بیان میں کہا گیا ہے، ’’جہاں تک اسلامک اسٹیٹ کے لیے وفاداری کے عہد کی بات ہے تو تحریک کے امیر فضل اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ ہم صرف ملا محمد عمر کی تائید و حمایت کا عہد کرتے ہیں۔‘‘
اے ایف پی نے اس بارے میں مزید لکھا ہے کہ طالبان کے سابق ترجمان کا اصلی نام شاہد اللہ شاہد نہیں ہے بلکہ یہ محض ایک فرضی نام ہے۔ بیان کے مطابق شاہد اللہ شاہد کا اصل نام شیخ ابو عمر مقبول ہے اور وہ اب اس تنظیم کے رکن نہیں ہیں۔ بیان میں یہ نہیں کہا گیا کہ TTP کے آئندہ ترجمان کے نام کا اعلان کب کیا جائے گا۔
اسی دوران اے ایف پی کے مطابق پاکستانی طالبان کے دو سینئر کمانڈروں نے بھی شاہد اللہ شاہد کی برطرفی کی تصدیق کر دی ہے۔ عسکریت پسندوں کے ان دو کمانڈروں میں سے ایک نے بتایا کہ اس برطرفی میں طالبان کی صفوں میں داخلی جھگڑوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
ٹی ٹی پی کے اس کمانڈر نے ایک نامعلوم جگہ سے ٹیلی فون پر اے ایف پی کو بتایا، ’’اصل وجہ یہ ہے کہ اس گروپ کی کمان سے متعلق شاہد اور تحریک کے سربراہ فضل اللہ کے مابین اختلافات پائے جاتے تھے۔‘‘ شاہد اللہ شاہد مبینہ طور پر مولانا فضل اللہ سے یہ مطالبہ کرتے رہے تھے کہ وہ شمالی وزیرستان لوٹیں، جہاں پاکستانی فوج اس سال جون سے طالبان کے خلاف آپریشن میں مصروف ہے۔ طالبان کے اس کمانڈر کے بقول شاہد کا موقف یہ تھا کہ فضل اللہ اس گروپ کی عملی قیادت کریں اور صرف افغان صوبے کُنڑ سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے احکامات جاری نہ کیا کریں۔
پاکستانی طالبان کے اس کمانڈر نے اے ایف پی کو مزید بتایا، ’’شاہد اللہ شاہد اس بات پر بھی ناراض تھے کہ مولانا فضل اللہ نے ٹی ٹی پی کے سجنا گروپ کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے معاملے میں بھی شاہد کو اعتماد میں نہیں لیا تھا۔