1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

Waffen Kontrolle UN

17 جولائی 2011

بات ٹینکوں کی ہو یا بندوقوں کی، بارود ہو یا جنگی جہاز، بین الاقوامی سطح پر اسلحے کی تجارت ابھی تک بے ضابطہ تھی۔ بہرحال اب ایسا لگتا ہے کہ اس حوالے سے ایک معاہدے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/11wue
تصویر: picture-alliance / dpa

اسلحے کی تجارت کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر ایک معاہدے کا مطالبہ بہت پرانا ہے۔ گزشتہ چھ برسوں سے عالمی برادری اس موضوع پر مذاکرات کرتی آ رہی ہے لیکن اب جمود ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی تخفیف اسلحہ کمیٹی کے ارکان کا اس بات پر اتفاق رائے ہو گیا ہے کہ اگلے موسم گرما میں اسلحے کی تجارت کے معاہدے کا مسودہ تیار کر کے رائے شماری کے لیے پیش کر دیا جائے گا۔ اس میں اس امرکو یقینی بنایا جائے گا کہ کسی بھی ایسے ملک کو اسلحہ فروخت نہیں کیا جائے گا جو اسے انسانی یا شہری حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے استعمال کر سکے۔ ساتھ ہی بین الاقوامی سطح پر روایتی اسلحے کی درآمد، برآمد اور منتقلی کی نگرانی کو باضابطہ قانونی شکل بھی دی جائے گی۔ اس سے قبل صرف جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے اس نوعیت کے قواعد و ضوابط موجود ہیں۔

Symbolbild Abrüstung
اسلحے کی غیر قانونی تجارت کو روکنا بہت ضروری ہے، ریڈ کراستصویر: AP

اقوام متحدہ کی تخفیف اسلحہ کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والے اس فیصلے کے بعد سعودی عرب کو جرمنی جنگی ٹینک کی فروخت کے سودے پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ اگر بین الاقوامی سطح پر کوئی قانون بن جاتا ہے، تو اسلحہ برآمد کرنے والے ملکوں کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانا پڑے گی۔ حال ہی میں برطانیہ نے چھوٹے ہتیھاروں کے علاوہ آنسو گیس کے کنستر اور بکتر بند گاڑیاں لیبیا، بحرین، یمن، شام اور سعودی عرب کو فروخت کی ہیں۔ اسی طرح فرانس اور اٹلی نے بھی اسلحے کی تجارت کے کئی ایسے معاہدے کئے ہیں۔ ہر ملک کے اپنے اور یورپی یونین کی سطح پر بھی اسلحے کی درآمد و برآمد کے حوالے سے قانونی ضابطے موجود ہیں لیکن اکثر ان قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے اور اپنے اقتصادی فائدے کو فوقیت دیتے ہوئے یہ ممالک اسلحے کی فروخت کے معاہدے کر لیتے ہیں۔ دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا تاجر ملک امریکہ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے امریکہ ہی اسلحے کی بین الاقوامی تجارت کی نگرانی کو مزید سخت کرنے کے کسی معاہدے کی مخالفت کرتا رہا ہے۔

اگر اگلے برس ایک معاہدہ طے پا بھی جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ اسلحے کی تجارت میں بے ضابطگیاں ختم ہو جائیں گی۔ بہت سی ایسی کمپنیاں بھی موجود ہیں، جو نیا یا پرانا اسلحہ ایسے خطوں میں فروخت کرتی ہیں، جہاں جنگیں ہو رہی ہیں۔ نجی سطح پر کیے جانے والے ان معاہدوں کی نگرانی کرنا تقریباً نا ممکن ہے،کیوں کہ زیادہ تر یہ غیر قانونی ہوتے ہیں۔ ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ اسلحے کی تجارت کے حوالے سے کوئی معاہدہ صرف اسی وقت کارآمد ہو سکتا ہے، جب غیر قانونی تجارت کو روکنے کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جائیں۔

Reichstag Demonstration Waffenexporte
جرمنی میں اسلحہ کی برآمد کے خلاف کئی مرتبہ مظاہرے ہوئے ہیںتصویر: dapd

رپورٹ : ہیلے ژیپسن

ترجمہ: عدنان اسحاق

ادارت : شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں