اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد کیا ہوگا؟
13 جنوری 2023پاکستان میں سیاسی اور صحافتی حلقے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت والے دو صوبوں میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد پاکستان کی سیاست کیا رخ اختیار کرے گی۔
اس کے علاوہ یہ سوال بھی اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا دو صوبوں میں اسمبلیوں کی تحلیل سے حکومت کو قبل از وقت الیکشن کرانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے؟
پاکستان کے سب سے بڑے صوبےپنجاب میں صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ وزیراعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی نے اسمبلیوں کی تحلیل کی ایڈوائس پر دستخط کرکے اسے گورنر ہاؤس بھجوا دیا ہے جہاں سے اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کسی بھی وقت سامنے آ سکتا ہے۔
ادھر لاہور کے علاقے زمان پارک میں واقع عمران خان کی رہائش گاہ پر خیبر پختونخواہ کی پارلیمانی پارٹی کے سرکردہ عناصر سر جوڑے بیٹھے ہیں اور وہ کے پی اسمبلی تحلیل کرنے کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ پنجاب کے گورنر بلیغ الرحٰمن کل رات تک اسمبلیوں کی تحلیل کا حتمی فیصلہ سنا دیں گے۔ انہوں نے اسمبلیوں کی تحلیل کی سمری کی موصولی کی تصدیق کرتے ہوئے اپنے رد عمل میں کہا تھا،''جوبھی فیصلہ کروں گا بھاری دل سےکروں گا، پنجاب اسمبلی عوامی نمائندگان کا ہاؤس ہے، اسمبلی کو تحلیل کرنا کوئی آسان فیصلہ نہیں ہوتا۔‘‘ ان کا تاہم کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی ایڈوائس پر عمل درآمد کرنا ناخوشگوار لمحہ ہوگا۔
پاکستانالیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ملک کی دو بڑی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے وفاقی حکومت پر دباؤ میں اضافہ ہوگا اور اسے اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے والے اپنے موقف پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ اور اس صورتحال پر آنکھیں بند کرنا اسٹیبلشمنٹ کے لیے بھی ممکن نہیں ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں صوبوں کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد وزرائے اعلٰی اپنے اپنے قائد حزب اختلاف سے مشاورت کرکے اپنے اپنے صوبے کے نگران وزیراعلٰی کا فیصلہ کریں گے۔ اسمبلی کی تحلیل والے صوبے میں وزیراعلٰی اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق نہ ہونے کی صورت میں یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا جس میں حکومت اور حزب اختلاف کے چھ چھ ارکان شامل ہوں گے۔
انہوں نے کہا، ''اگر یہاں بھی فیصلہ نہ ہو سکا تو پھر نگران وزیراعلی کا فیصلہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ نگران سیٹ اپ میں وزیروں کا انتخاب نگران وزیراعلٰی ہی اپنی مرضی سے کریں گے۔ ‘‘
پاکستان میں کئی قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ملک کی معاشی و سیاسی صورتحال کے پیش نظر ملک باربار انتخابات کرانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے سارے الیکشن اکٹھے کروانے کے لیے یہ معاملہ عدالت کے ایوانوں میں جا سکتا ہے۔ حکومت مردم شماری کے بعد الیکشن والے مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے یا معاشی ایمرجینسی کی آڑ میں عدلیہ سے رجوع کر سکتی ہے۔
ایک انگریزی اخبار سے وابستہ سینیئر تجزیہ کار میاں سیف الرحٰمن نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی سیاست اس وقت دباؤ اور ردعمل کی شکار ہے۔ ان کے مطابقپنجاب اور کے پی کی صوبائی حکومتوں کے تحلیل ہونے سے وفاقی حکومت پر دباؤ تو ضرور بڑھا لیکن ان کے خیال میں مقتدر حلقوں میں یہ احساس بھی پایا جاتا ہے کہ جنیوا کانفرنس اور دوست ممالک سے ملنے والی امداد کے بعد ملک کو عدم استحکام سے دوچار کیے بغیر اسے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے اور اس تسلسل کو نہیں ٹوٹنا چاہیے۔
میاں سیف الرحٰمن سمجھتے ہیں کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ کسی عدالتی فیصلے کے نتیجے میں ٹیکنوکریٹ پر مبنی نگران سیٹ اپ طوالت اختیار کر جائے۔ بعض لوگوں کے نزدیک ملک کی موجودہ صورتحال میں شاید یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے انتخابات کی طرف جانے کا ''محفوظ ‘‘راستہ مل سکتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں میاں سیف نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ معاملات کو سنبھالنے کے لیے کسی نہ کسی جگہ پر معاملات طے پا چکے ہوں اور طے شدہ امور کی تفصیلات آہستہ آہستہ سامنے لائی جا رہی ہوں۔
دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نون نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کے ساتھ مل کر اسمبلیوں کی تحلیل کے خلاف عدالتی آپشنز پر مشاورت شروع کر رکھی ہے۔ غیر متوقع طور پر انتخابی فضا بن جانے کے اندیشے کے پیش نظر مسلم لیگ نون میں نواز شریف اور مریم نواز کی وطن واپسی کی خبروں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔
حکومت کا مستقبل: حالات کس رخ پر جارہے ہیں
اس سوال کے جواب میں کے اسمبلیوں کی تحلیل کے اس کھیل میں کس کس کو کیا کیا سیاسی قیمت ادا کرنا پڑی ہے، سینیئر تجزیہ کار جاوید فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے اس سارے کھیل میں مسلم لیگ نون کو بہت نقصان ہوا ہے۔ ان کے بقول مسلم لیگ نون نے اسمبلیوں کی تحلیل کو ایک چیلنج بنا کر بلند بانگ دعوے کرنے شروع کر دیے تھے لیکن مسلم لیگ نون کی ناکامی نے جہاں اس کے ووٹروں کو مایوس کیا وہاں اس کا عوام میں ایمیج بھی مجروح ہوا۔ '' مسلم لیگ نون کو اپنی مخالف حکومت سے تو نجات مل گئی لیکن عوام پرویز الہٰی کے اعتماد کا ووٹ لے لینے کے عمل کو مسلم لیگ نون کی ناکامی سے تعبیر کر رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان اپنی صوبائی حکومتوں سے محروم ہو رہے ہیں لیکن عوام میں ان کی کامیابی کا تاثر پھیل رہا ہے۔‘‘
جاوید فاروقی کی رائے میں حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات نے اس تاثر کو بھی دھندلا دیا ہے کہ مسلم لیگ نون کو اسٹیبلشمنٹ کا بھرپور ساتھ حاصل ہے۔ ان کے خیال میں اسمبلی میں پرویز الہٰی کو ووٹ دینے کے لیے ارکان اسمبلی منڈی بہاؤالدین ، بہاولپور اور چکوال جیسے علاقوں سے بلا روک ٹوک لاہور ۔ انہیں راستے میں ٹول پلازہ اور موٹروے پر کسی نے پوچھا تک نہیں۔ ''ایسا لگتا تھا کہ کوئی پرویز الہی کی کامیابی چاہتا ہے۔ ‘‘
پاکستان میں مرکز اور صوبوں کے درمیان کشیدگی کا تاریخی پس منظر
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں اسمبلی کی تحلیل کی کارروائی شروع ہونے کی وجہ سے عدم استحکام میں اضافہ ہو گیا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر پنجاب کو بھیجے جانے کے بعد پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں حصص کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔