اسپین میں پارلیمانی انتخابات، اپوزیشن کی پوزیشن مستحکم
20 نومبر 2011یورپی ملک اسپین کے عوام موجودہ حکومت سے کچھ خاص خوش نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یورو زون میں اقتصادی بحران کے دوران حکمران سوشلسٹ پارٹی نے احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کیں، جس کی وجہ سے اسپین کی معیشت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ سوشلسٹ پارٹی گزشتہ سات برس سے اقتدار میں ہے۔ تاہم وہ ابھی تک ملک میں بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لیے کوئی مؤثر پالیسی نہیں بنا سکی ہے۔
عوامی جائزوں کے مطابق اسپین کے عوام موجودہ حکومت سے اس لیے بھی نالاں ہیں کیونکہ اس نے ملکی معیشت کی بحالی یا اسے نقصان سے بچانے کے لیے بھی کوئی ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔ ماہرین کے خیال میں اگر اسپین میں مؤثر اقتصادی پالیسی اختیار نہیں کی جاتی تو اس یورپی ملک کو بھی یونان اور اٹلی کی طرح مالی امدادی پیکج کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اس صورتحال میں کروائے گئے مختلف جائزوں کے مطابق اپوزیشن پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ ماریانو راخوائے کو سوشلسٹ پارٹی کے رہنما اور اپنے مرکزی حریف الفریڈو پیرس روبل کابا پر سترہ پوائنٹس کی برتری حاصل ہے۔ اگر راخوائے ان صدراتی انتخابات میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اسپین میں 1970ء میں جنرل فرانکو کی آمریت کے بعد وہاں پہلی مرتبہ کسی قدامت پسند پارٹی کو کامیابی ملے گی۔
پیپلز پارٹی کے حامی چالیس سالہ ٹرک ڈرائیور فرنینڈو گاشیا نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ملک کی معیشت خستہ حال ہو چکی ہے اور اب راخوائے کے لیے اسے درست سمت میں لے جانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔ اس وقت اسپین میں ہر پانچ میں سے ایک شہری بے روزگار ہے۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق اسپین میں 1.4 ملین گھرانوں میں سے ایک بھی شخص کے پاس باقاعدہ ملازمت نہیں ہے۔
اسپین میں عام خیال کیا جاتا ہے کہ سوشلسٹ پارٹی کے دور اقتدار میں غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں بے روزگاری کی شرح بائیس فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ تاہم عوام کا خیال ہے کہ حکومت تبدیل ہونے سے حالات میں بہتری پیدا ہو سکتی ہے۔
سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے رہنما اور موجودہ وزیر اعظم خوسے لوئیس سپاتیرو کی مقبولیت میں بہت زیادہ کمی واقع ہو چکی ہے۔ انہوں نے گزشتہ برس کے اوائل میں ہی کہہ دیا تھا کہ وہ تیسری مرتبہ وزارت عظمٰی کے عہدے کے لیے میدان میں نہیں اتر رہے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: حماد کیانی