1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

اشتہارات کے حوالے سے مریم نواز کا اعتراف موضوع بحث

عبدالستار، اسلام آباد
26 نومبر 2021

مریم نوازشریف کی طرف سے مخصوص میڈیا ہاوسسز کو اشتہارات نہ دینے کے حوالے سے آڈیو لیکس کے اعتراف کی گونج ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ کئی قانونی ماہرین اس کے قانونی پہلوؤں پر بھی بحث کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/43Xi4
تصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

 

وزیراعظم عمران خان نے بھی آج ایک اجلاس میں مریم نواز کو اس اعتراف کو ہدف تنقید بنایا۔ پاکستانی میڈیا میں ذرائع کے حوالے سے چلائے جانے والے اس بیان میں عمران خان نے سوال کیا کہ مریم نواز شریف کس حیثیت میں یہ ہدایات دے رہی تھیں۔ عمران خان نے نون لیگ پرالزام لگایا کہ اس نے ہمیشہ میڈیا کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مریم نواز کے انکشاف کے حوالے سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے بھی ایک بیان جاری کیا تھا، جس میں اشتہار روکنے کی اس کوشش کو افسوسناک قرار دیا تھا۔

قانونی کارروائی ہو سکتی ہے

ان بیانات سے ہٹ کر بھی اس مسئلے پر ابھی تک بحث چل رہی ہے اور قانونی ماہرین کے خیال میں اگر حکومت اس کی کوئی تحقیقات کرتی اور تحقیقات میں کچھ شواہد سامنے آتے ہیں تو مریم نواز کے خلاف کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔ ممتاز قانون دان احمد رضا قصوری کا کہنا ہے کہ مقدمہ یا کاروائی کرنے سے پہلے حکومت کو انکوائری کرنی پڑے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اگر یہ بات درست ثابت ہوجاتی ہے کہ مریم نواز سرکاری افسران کو ہدایت دے رہی تھی اور سرکاری وسائل کو استعمال کر رہی تھی، تو اس سے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ انہوں نے قواعد اور قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور پھر متعلقہ قواعد کے تحت ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔‘‘

احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ اگر انکوئرای کمیشن یا انکوائری کمیٹی میں مریم نواز کو بلایا جاتا ہے تو مریم نواز کو حاضر ہونا پڑے گا۔ "ایک تھانے دار کو بھی اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ اگر کسی بھی معاملے کی تفتیش کر رہا ہے تو وہ متعلقہ افراد کو طلب کرے۔ یقینا اگر ایسی کوئی صورت حال ہوتی ہے تو مریم نواز کو حاضر ہونا پڑے گا۔‘‘

سابق ایڈینشنل ڈی جی ایف آئی اے لاہور ظفر قریشی کا کہنا ہے کہ کارروائی صرف مریم نہیں بلکہ ان افسران کے خلاف بھی ہوگی، جنہوں نے ان کے کہنے پر کسی کو اشتہار دیے اور کسی کے روکے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں یہ کار سرکار میں مداخلت بھی ہے اور فنڈز کے غلط استعمال کا مقدمہ بھی ہے، جس کی ایف آئی اے تفتیش کر سکتی ہے اور مریم کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔‘‘

پیچیدگیاں

تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس مسئلہ کی تحقیق اتنی آسان نہیں ہوگی کیونکہ اس سے بہت سارے سوالات اٹھیں گے۔

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے ایک قانون دان نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پہلا سوال تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مریم نواز شریف کی فون کی ریکارڈنگ کس نے کی اور کیوں کی۔   صرف دہشت گردی کے کیسز میں متعلقہ ہائی کورٹ کسی شہری کے فون کی ریکارڈنگ کا حکم دے سکتا ہے اور اس کے لیے وہ وقت کا تعین بھی کر سکتا ہے۔ اگرمریم نواز کے فون کو بغیر عدالتی حکم کے ریکارڈ کیا گیا ہے تو یہ قانون کی بہت بڑی خلاف ورزی ہے ایسی خلاف ورزیوں پر جمہوری ممالک میں بڑے حکومتی عہدیدار برطرف بھی ہوئے ہیں یا انہیں استفعی دینا پڑا ہے۔‘‘

کارروائی صرف ایک صورت میں ہوسکتی ہے

اس قانون دان کا مزید کہنا تھا کہ مریم نواز شریف کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں تھا لہذا ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ "انہیں نواز شریف نے ایک سرکاری عہدہ دیا تھا جو رضاکارانہ تھا لیکن اس پر بھی عدالت نے ایکشن لیا تھا اور نواز شریف کو مریم نواز کو اس عہدے سے ہٹانا پڑا تھا۔ اگر کسی شخص کے پاس حکومتی عہدہ ہو تو عہدے کے غلط استعمال کے حوالے سے  یا اختیارات کے غلط استعمال کے حوالے سے مقدمہ بن سکتا ہے لیکن مریم نواز کے پاس ایسا کوئی عہدہ نہیں تھا تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔‘‘

تاہم اس قانون دان نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اگر کوئی سرکاری ملازم یا افسر عدالت کو کہتا ہے کہ مریم نواز شریف نے ان کودھونس یا دھمکی  کے ذریعے کوئی کام کروانے کا کہا تھا تو پھر ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے۔‘‘

اٹھارہ ارب روپے کا معاملہ

پی ٹی آئی کا دعوی ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت اور مریم نواز شریف نے بے دریغ طریقہ سے سرکاری پیسہ بہایا اور ایک اندازے کے مطابق اشتہارات کی مد میں تقریبا اٹھارہ ارب روپے کے قریب خرچ کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن پنجاب اسمبلی مسرت جمشید چیمہ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مریم نواز شریف وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھی تھیں اور مختلف لوگوں کو حکم دیتی تھیں اور ایک اندازے کے مطابق 18 ارب روپے کے اشتہارات دیے گئے ہیں۔ مریم نے پہلے ہی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس میں آواز ان ہی کی ہے۔ اب اس بات کی تحقیق ہونی ہے کہ انہوں نے کن  لوگوں کو احکامات دیے۔ جب یہ احکامات دیے گئے اس وقت مسلم لیگ نون کی حکومت میں تھی۔‘‘

نون لیگ کا موقف

نون لیگ کے رہنما اور سابق وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ وہ یہ بات وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ جب مریم نے یہ ہدایات دیں تو نون لیگ اقتدار میں نہیں تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "میں وزیر اطلاعات تھا اور اگر میرے کسی افسر کو یا پرنسپل انفارمیشن آفیسر کو اس طرح کی کوئی ہدایت آتی تو وہ یقینا مجھے بتا د یتے۔ دوسرا یہ کہ کسی بھی چینل کو ایسے ہی اشتہار نہیں دیے جاتے بلکہ حکومت کا متعلقہ ادارہ پرنسپل انفارمیشن آفیسر کو خود یہ لکھ کر بھیجتا ہے کہ یہ فلاں فلاں اشتہار کس کس چینل کو دیا جائے۔ اگر پرنسپل انفارمیشن آفیسر وہ اشتہار اس کے مطابق نہیں دے گا تو اس کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ اس طریقہ کار کی پابندی کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘‘

پرویز رشید کا مزید کہنا تھا کہ اگر واقعی ایسا ہوتا تو پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن اس پر بھرپور احتجاج بھی کرتی اور شکایت بھی کرتی۔ "ریکارڈ اٹھا کے چیک کر لیں کہ کیا ایسوسی ایشن نے یا اخبارات کی تنظیموں نے اس طرح کی کوئی شکایت کی۔ یہ ممکن نہیں ہیں کہ آپ کچھ چینلز کو اشتہار دے رہے ہوں، تو دوسرے چینل والے خاموش بیٹھے رہیں۔‘‘

    تازہ ترین آڈیو اسکینڈل: پاکستانی سیاست کس طرف جا رہی ہے؟