ہمارے ملک میں جمہوریت کی شہرزاد پر گزرنے والی ابتلا ایسی سادہ نہیں رہی۔ گزشتہ صدی کو ایک طرف رکھیے۔ بلا کشان محبت پہ جو ہوا، سو ہوا۔ اکیسویں صدی طلوع ہوئی تو ہم اس رات کی اندھیری سرنگ میں تھے، جو 12 اکتوبر 1999ء کو مسلط ہوئی تھی۔ دستور، پارلیمنٹ، عدلیہ، معیشت اور خارجہ پالیسی سمیت قوم کا ہر عضو فرد واحد کے اشارہ ابرو کے تابع تھا۔
مقبول سیاسی قیادت کو طاقت کے بل پر وطن سے باہر رکھنا تھا یا کشمیر میں مسلح مداخلت کو خاموشی سے ختم کرنا تھا، نائن الیون کے بعد طالبان کو پناہ دینا تھی یا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ سے دوہرا کھیل کھیلنا تھا، یہ سب امکانات ایک غیردستوری بندوبست کی غیرجواب دہ صوابدید پر طے پا رہے تھے۔
پھر مئی 2006ء کی ایک سہ پہر لندن میں جمہوری قیادت کے درمیان میثاق جمہوریت کے عنوان سے ایک معاہدہ طے پایا، جس کا یک سطری مفہوم یہ تھا کہ سیاسی عمل میں ماورائے دستور مداخلت کی حمایت نہیں کی جائے گی۔ 1973ء کی آئین کے بعد یہ ملکی تاریخ کی اہم ترین جمہوری پیش رفت تھی اور اس کی قیمت محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنے لہو سے ادا کرنا پڑی۔
پنڈی کی زمین پر اس خون ناحق سے جڑی بارود کی ناگوار بو کے پس منظر میں متعدد بظاہر غیر متعلق عوامل بھی کارفرما تھے۔
- مشرف کے طویل اقتدار کا ناگزیر ادارہ جاتی دباؤ
- کشمیر پر من موہن۔ مشرف خفیہ مذاکرات
- مذہبی دہشت گردی کی مقامی حرکیات پر عالمی تشویش
- بے نظیر اور مشرف میں قومی مفاہمت کا سمجھوتہ اور
- عدلیہ اور حکومت میں آویزش۔
بے نظیر کے قتل کے بعد نمودار ہونے والا کسی قدر غیرمتوقع سیاسی منظر پیوستہ مفادات کے لئے ہرگز خوشگوار نہیں تھا چنانچہ پرانی چنگاریوں کو ہوا دینے کا عمل شروع ہوا۔ عدلیہ اور این آر او کارآمد حربے تھے۔ نومبر 2008ء میں ممبئی حملوں سے کئی امکانات پر بحیرہ عرب کا پانی پھر گیا۔ 2007ء کی عالمی کساد بازاری کے تناظر میں کیری لوگر بل ایک مثبت پیش رفت تھی لیکن اس میں سیاسی قوتوں کی مضبوطی کا اندیشہ تھا۔ صحافت اور سیاست کے آزمودہ مہروں کی مدد سے اس پر دھول اڑائی گئی۔
دوسری طرف سیاسی قوتوں نے 2010ء میں دو بنیادی کامیابیاں حاصل کیں۔ مارچ 2010ء میں ساتواں قومی مالی ایوارڈ منظور ہوا، جس میں صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم کا فارمولا طے پایا۔ اپریل 2010ء میں اٹھارہویں آئینی ترمیم میں دستور کا پارلیمانی تشخص بحال کرنے کے علاوہ صوبائی خود مختاری کا قدیمی مسئلہ حل کیا گیا۔ یہ دونوں اقدام مقتدر حلقوں کے لئے بے حد تلخ تھے کیونکہ ان سے جمہوری بندوبست کا ایسا استحکام ممکن تھا، جو قومی سطح پر طاقت کا توازن بدل سکتا تھا۔
مئی 2011ء میں اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موت نے اس کھلے راز کی لٹیا ہی ڈبو دی کہ 2002ء سے افغانستان اور خطے میں سرگرم دہشت گرد قوتوں کی سرپرستی ترک نہیں کی گئی تھی۔ اس انکشاف کے بعد نیم جمہوری بندوبست کی تدفین ضروری ہو گئی کیونکہ جمہوری قوتوں نے کئی عشرے قبل مذہبی انتہا پسندی اور طاقت کے ماورائے دستور مراکز میں گٹھ جوڑ کو سمجھ لیا تھا۔
90ء کے بعد سے ریاستی سطح پر مغرب دشمنی کے مظاہر بھی دراصل ملک کے جمہوری ارتقا کو مفلوج کرنے کی کوشش تھے۔ 2011ء میں میمو گیٹ سکینڈل کے نام سے ایک بے سروپا قصہ کھڑا کر کے پیپلز پارٹی حکومت کی بنیادیں ہلا دی گئیں۔ 2012ء میں مبینہ سوئس اکاؤنٹس کی آڑ میں یوسف رضا گیلانی کی عدالتی معزولی کے ذریعے حکومت کو بے دست و پا کر دیا گیا۔
دلچسپ امر یہ کہ بعدازاں میمو گیٹ اور سوئس اکاؤنٹس کے ضمن میں عدالتی کارروائی خاموشی سے لپیٹ دی گئی۔ اس دوران ایک تیسرے درجے کی خود کاشتہ سیاسی جماعت تحریک انصاف کی سرپرستی کا فیصلہ کیا گیا۔ مقتدرہ کے آزمودہ رفیق سیاست دانوں اور تابع فرماں میڈیا کی مدد سے عمران خان کی صنم تراشی اور تحریک انصاف کی سرپرستی شروع ہوئی۔
مئی 2013ء کے انتخابات بھی قابل قبول نتائج نہ دے سکے کیونکہ مسلم لیگ (نواز) حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سے میثاق جمہوریت کا جرم سرزد ہوا تھا نیز دونوں جماعتیں افغانستان، بھارت، دہشت گردی، معیشت اور مغرب سے تعلقات جیسے نکات پر مقتدرہ سے مکمل اتفاق نہیں رکھتی تھیں۔
چنانچہ ابتدا ہی سے مسلم لیگ حکومت کی مخالفت شروع ہو گئی۔ پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل چھ کی کارروائی نے حکومت اور مقتدرہ میں کھلی مخالفت کو واضح کر دیا۔ مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف 2014ء کا دھرنا اسی کشمکش کا شاخسانہ تھا۔ 2016ء میں جنرل راحیل شریف کی توسیع کے سوال نے ڈان لیکس کی صورت اختیار کر لی۔ اپریل 2016ء میں پانامہ پیپرز کے جس مدعے کو سپریم کورٹ نے بے سروپا قرار دیا تھا، اسے اکتوبر 2016ء میں اس تندہی سے اٹھایا گیا کہ جولائی 2017ء میں نواز شریف جی ٹی روڈ کے راستے لاہور روانہ ہو گئے۔
جولائی 2018ء میں عمران خان کی انتخابی جیت محض ”دو سالہ محنت" نہیں تھی۔ یہ حسن کوزہ گر کی وہ نو سالہ محبت تھی، جو 2010ء کے ابتدائی مہینوں میں شروع ہوئی تھی۔ اپنے اقتدار کے ابتدائی مہینوں ہی میں عمران حکومت معیشت، سیاسی استحکام اور سفارتی محاذ پر بری طرح ناکامیوں کا شکار ہوئی۔
اس کی بنیادی وجہ محض حکومتی جماعت کی نا اہلی نہیں تھی بلکہ سیاسی بندوبست کی مشتبہ جمہوری ساکھ، اہم حکومتی ارکان کی کمزور اخلاقی قامت اور پیوستہ معاشی مفادات کی کھلی لوٹ مار تھی۔ 2021ء کے آخری مہینوں میں عوامی بے چینی، حکومت کی ناکردہ کاری اور حکمران جماعت کے غیرحقیقی عزائم نے ایک نئے سیاسی بحران کو ناگزیر بنا دیا۔ ستمبر 2020ء میں قائم ہونے والے اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے حالات کو بھانپ کر پھر سے جھرجھری لی اور تحریک عدم اعتماد کا ڈول ڈال دیا۔
ماہ رواں میں سیاست کے بنتے بگڑتے بھنور کا انجام کچھ بھی ہو، یہ طے ہے کہ حسن کوزہ گر نے کلی اقتدار کی جہاں زاد تک رسائی کی منصوبہ بندی میں پھر سے ٹھوکر کھائی ہے۔ عمران خان کی سیاست ہمیشہ سے داخلی توانائی سے عاری تھی۔ حالیہ سیاسی طوفان تو حسن کوزہ گر کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی پر تاریخ کے عدم اعتماد کا معاملہ ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔