افریقہ میں اثرو رسوخ کی جنگ، امریکہ بمقابلہ چین اور روس
14 دسمبر 2022گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران یہ پہلی براعظمی کانفرنس ہے، جس میں شرکت کے لیے 49 افریقی رہنما واشنگٹن پہنچ چکے ہیں۔ امریکہ معدنیات کی دولت سے مالا مال براعظم افریقہ میں اپنا اثر و رسوخ دوبارہ بڑھانا چاہتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن ذاتی سطح کی سفارت کاری کر رہے ہیں۔
تین روزہ سربراہی اجلاس کے آغاز پر کئی افریقی صدور کے ساتھ ایک پینل میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے الزام لگایا ہے کہ اس خطے میں امریکی حریفوں کا نقطہ نظر اور ان کے مقاصد مختلف ہے۔ یہاں حریفوں سے ان کی مراد چین اور روس ہیں۔
امریکہ کے چین اور روس پر الزامات
آسٹن نے کہا کہ چین اپنے بڑھتے ہوئے معاشی اثر و رسوخ کے ذریعے ''روزانہ کی بنیاد پر‘‘ افریقہ میں اپنے قدموں کے نشان چھوڑ رہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا، ''پریشان کن بات یہ ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں، اس میں شفافیت نہیں ہے اور اس طرح ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جو آخرکار عدم استحکام پیدا کرتے ہیں‘‘۔
ان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ''روس سستے ہتھیاروں کی فروخت جاری رکھے ہوئے ہے اور کرایے کے فوجیوں کو پورے براعظم میں تعینات کر رہا ہے۔ اس طرح عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے‘‘۔
چین کے ڈیجیٹل سلک روڈ کا مستقبل
لیکن بائیڈن انتظامیہ اس حوالے سے محتاط رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ وہ افریقی رہنماؤں کو یہ کہنے سے گریزاں ہے کہ یا تو ہمارے ساتھ چلو یا پھر چین اور روس کے ساتھ روابط رکھو۔ بائیڈن انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ چین نے افریقہ میں بڑے پیمانے پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں اور اب ان کا خاتمہ نہ ممکن ہے۔
امریکہ سرمایہ کاری سے مقابلہ کرے گا
صدر جو بائیڈن آئندہ تین برسوں میں افریقہ کے لیے 55 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اپنے پہلے اعلان میں وائٹ ہاؤس نے کہا کہ امریکہ 2025ء کے مالی سال تک افریقی صحت کے کارکنوں کی تربیت کے لیے چار بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔
اس سمٹ میں امریکی خلائی ادارے ناسا کو بھی لایا گیا۔ نائیجیریا اور روانڈا 'آرٹیمس معاہدے‘ پر دستخط کرنے والے پہلے افریقی ممالک بن گئے ہیں۔ امریکہ چاند، مریخ اور اس سے آگے کے سفر کے لیے بین الاقوامی تعاون کا خواہاں ہے۔ آرٹیمس معاہدے میں پہلے سے ہی یورپی اتحادی، جاپان اور کئی لاطینی امریکی طاقتیں شامل ہیں۔
امریکہ اس خلائی منصوبے کو ایک ایسے وقت میں تیزی سے وسعت دے رہا ہے، جب چین خلائی منصوبوں اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور روس کے ساتھ بگڑتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے 'امریکہ روس خلائی تعاون‘ بھی خطرے سے دوچار ہے۔
چین کا امریکہ کو جواب
دوسری جانب چین نے افریقہ میں اپنے کردار پر امریکی تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔ واشنگٹن میں تعینات چینی سفیر چن گانگ نے کہا ہے کہ براعظم افریقہ کو ''بڑی طاقتوں کے مقابلے‘‘ کا میدان نہیں بننا چاہیے۔ دریں اثناء بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا ہے، ''واشنگٹن کو چاہیے کہ افریقی عوام کی خواہش کا احترام کرے اور اسے افریقہ کی ترقی میں مدد کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں، بجائے اس کے کہ وہ اپنی توجہ دوسرے ممالک کو بدنام کرنے پر مرکوز رکھے‘‘۔
سن 2014ء میں باراک اوباما کی طرف سے افریقی لیڈروں کو مدعو کرنے کے بعد یہ پہلا 'امریکی-افریقی سربراہی‘ اجلاس ہے۔ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی براعظم افریقہ میں عدم دلچسپی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں تھی۔
لیکن اب ایک مرتبہ پھر صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے سکیورٹی اور سفارتی دونوں محاذوں پر افریقی یونین کے ساتھ کام کرنے پر زور دیا ہے۔ بائیڈن 14 دسمبر بروز بدھ کو ایک تقریر کے دوران افریقی یونین کے لیے امریکی حمایت کا ایک خاکہ پیش کریں گے تاکہ دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کے جی ٹوئنٹی کلب میں افریقی یونین باضابطہ طور پر جگہ حاصل کر سکے۔
امریکہ نے حال ہی میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل طور پر ایک افریقی نشست بھی ہونی چاہیے۔
افریقی یونین کے سربراہ موسیٰ فاکی ماہمت نے امریکی حمایت کو سراہا لیکن ساتھ ہی متنبہ کیا کہ امریکہ کی توجہ اب بھی مشرق وسطیٰ میں شدت پسندوں سے لڑنے پر مرکوز ہے، ''اس دوہرے معیار کے افریقہ اور دنیا میں امن و جمہوریت کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں‘‘۔
ا ا / ر ب ( اے ایف پی، روئٹرز)