افریقی پناہ گزینوں کی اسرائیل آمد روکنے کے لئے اقدامات شروع
29 دسمبر 2010افریقہ کے پناہ گزینوں کے لئے اسرائیل کوئی پرامن جنت ثابت نہیں ہو رہا۔ بے شمار پہنچنے والے ابھی تک یہ نہیں جانتے کہ ان کی پوزیشن کیا ہے۔ افریقی باشندوں نے سن 2006 ء میں اسرائیل کی جانب رخ کرنا شروع کیا تھا۔ ان لوگوں کی بڑھتی تعداد سے اسرائیلی حکومت کو پریشانی لاحق ہو چکی ہے اور اس تناظر میں مصر کے ساتھ جڑے 250 کلو میٹر لمبے بارڈر پر خاردار باڑ لگانے کا عمل شروع کردیا گیا ہے۔
اس مناسبت سے بحیرہ احمر پر واقع اسرائیلی بندر گاہی شہر ایلات کو افریقی پناہ گزینوں کی طغیانی کا سامنا ہے۔ نیتن یاہو حکومت کی کوشش ہے کہ کسی طور افریقی پناہ گزینوں کی آمد کو ہر صورت روک دیا جائے۔ ان میں مسیحیوں کے علاوہ کئی مسلمان بھی ہیں۔ یہ مختلف افریقی ملکوں سے پہنچ رہے ہیں اور ان میں سوڈان اور اریٹیریا نمایاں ہیں۔
اسرائیل کے اندر بھی ان باشندوں کی زندگی کوئی عالیشان نہیں ہے بلکہ یہ لوگ جھونپڑیوں میں آباد ہونے پر مجبور ہیں۔ ایلات شہر میں ایسی ہی ایک کچی بستی کو افریقی پناہ گزینوں نے ’ سنگ سنگ‘کا نام دیا ہے۔ سنگ سنگ نام کی امریکہ میں قائم ایک قدیمی بدنام جیل ہے۔ دریائے ہڈسن کے کنارے پر واقع نیو یارک شہر کی یہ جیل امریکہ میں انتہائی زیادہ سکیورٹی والی جیل تصور کی جاتی ہے۔
اسرائیلی لوگ بھی پریشان ہیں کیونکہ کچی بستی کے اندر سے افریقی مردوں کے گروہ باہر نکل کر شام کے وقت ہوٹلوں اور کلبوں کی جانب رواں دواں اسرائیلی فیش ایبل مردوزن پر آوازیں کسنے سے باز نہیں آتے۔ ایلات کے شہری اب ان سے پریشان ہونے لگے ہیں۔ خاص طور پر نوجوان تو کھل کر ان کی بیدخلی کی بات کرنے لگے ہیں۔ ایلات کے شہریوں کا کہنا ہے کہ ان افریقی مہاجرین نے ان کے شہر کو گندے بدبودار پیمپرز، بوسیدہ کپڑوں اور دوسری غلاظت سے بھر کر شہرکی فضا کو مکدر کردیا ہے۔ ایلات کے کچھ لوگ ان افریقی تارکین وطن پر رحم کی نگاہ بھی ڈالتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہودی ریاست کو ان پناہ گزینوں سے شدید پریشانی لاحق ہو چکی ہے۔
ایلات شہر کی انتظامیہ کے ایک عہدے دار نہوم شیری کا کہنا ہےکہ ابتدا میں پانچ سو تارکین وطن پر انسانی بنیادوں پر نظر ڈالی گئی تھی لیکن اب یہ تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ نہوم کے مطابق ایلات شہر کی ساٹھ ہزار آبادی ان دس ہزار افریقیوں کے بوجھ تلے دبنا شروع ہو گئی ہے۔ نہوم کے مطابق اب حکومت کو طے کرنا ہے کہ ان لوگوں کا سٹیٹس کیا ہے تا کہ اس کے مطابق ان کے ساتھ سلوک کیا جا سکے۔
دوسری جانب حکومت ان افراد کے حوالے سے تفتیشی عمل کو بھی جاری رکھے ہوئے ہے اور اس کے مطابق یہ لوگ سیاسی پناہ کے متلاشی نہیں ہیں بلکہ روزگار کی تلاش میں اسرائیل پہنچے ہیں۔ پانچ ہزار افریقی پناہ گزینوں میں سے صرف دو کو سرکاری طور پر ریفیوجی کا درجہ دیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے ان پناہ گزینوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک کے تناظر میں تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ان باشندوں کو اسرائیل کی جانب سے ریفیوجی کا سٹیٹس دینا ضروری ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: عاطف بلوچ