1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان اسکولوں کو فوجی اڈے بنایا جا رہا ہے، ہیومن رائٹس واچ

صائمہ حیدر17 اگست 2016

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے تحفظ کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے افغانستان پر الزام عائد کیا ہے کہ صوبہ بغلان میں افغان سیکیورٹی فورسز بچوں کے اسکولوں کو فوجی اڈوں کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JjcX
Afghanistan Schule in Kandahar - Lehrer Mohammad Esa Kakar
افغانستان بھر میں قریب آٹھ ملین طلبہ اور طالبات اسکولوں میں رجسٹر ہیںتصویر: DW

ہیومن رائٹس واچ کی آج شائع ہوئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان صوبے بغلان کے چند دیہاتوں میں بچوں کے اسکولوں کی عمارتوں کو آرمی اپنے کیمپوں کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اِس عمل میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور ان دیہاتوں میں صرف یہی مضبوط عمارتیں ہیں جنہیں افغان فورسز طالبان کے خلاف کارروائیوں میں استعمال کر رہی ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ بغلان میں کم از کم بارہ اسکول فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہوئے ہیں جس سے ان اسکولوں پر جوابی حملوں کا خدشہ ہے اور اس طرح ان میں موجود اساتذہ اور بچوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ایسا کرنے سے افغانستان میں بچوں کے تعلیم حاصل کرنے کا حق بری طرح پامال ہوا ہے اور ملک میں ہزاروں کی تعداد میں بچے تعلیم کے حصول سے محروم ہو گئے ہیں۔

یاد رہے کہ افغانستان بھر میں قریب آٹھ ملین طلبہ اور طالبات اسکولوں میں رجسٹر ہیں۔ صوبہ بغلان افغانستان کے سب سے زیادہ شورش زدہ ‌صوبوں میں سے ایک ہے جس کے کئی ایک اضلاع یا تو طالبان کے کنٹرول میں ہیں اور یا پھر وہاں عسکریت پسندوں کے ساتھ جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ ہیومن رائٹس واچ نے افغان حکومت اور افغان سیکیورٹی فورسز سے مطالبہ کیا ہے کہ اسکول کی عمارتوں کا فوجی اڈوں کے طور پر استعمال بند کیا جائے اور اس حوالے سے مناسب اقدام اٹھائے جائیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے ادارے نے طالبان سے بھی اسکولوں پر حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔