افغان حکومت اور حزب اسلامی کے مابین امن معاہدہ
29 ستمبر 2016افغان صدر اشرف غنی نے ملک ميں قيام امن کے ليے جنگجو سردار اور حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے ساتھ ايک امن معاہدے پر دستخط کر ديے ہيں۔ معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب دارالحکومت کابل کے صدارتی محل میں منعقد ہوئی جس میں حکمت یار نے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کرتے ہوئے معاہدے پر دستخط کیے۔ يہ تقريب افغانستان ميں ٹيلی وژن پر براہ راست نشر کی گئی تھی۔ پچيس نکات پر مشتمل يہ امن معاہدہ حکمت يار اور ان کے حاميوں کو ان کی سابقہ سرگرميوں کے خلاف قانونی کارروائی سے استثنیٰ بھی فراہم کرتا ہے۔
افغانستان ميں طالبان کے ساتھ سن 2001ء میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد حکومت کے خلاف لڑنے والے کسی گروپ کے ساتھ کابل حکومت کا یہ پہلا امن معاہدہ ہے۔ عالمی سطح پر اس معاہدے کا خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔
اس پيش رفت کے تناظر ميں صدر غنی نے اقوام متحدہ اور امريکا سے درخواست کی ہے کہ حکمت يار اور ان کی جماعت کا نام کالعدم افراد اور تنظيموں کی فہرست سے خارج کر ديا جائے۔ کابل ميں حکمت يار کے وفد کے سربراہ امين کريم نے خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کو بتايا کہ پابندياں آئندہ چند ہفتوں ميں اٹھائی جا سکتی ہيں۔ امکان ہے کہ اپنے خلاف عائد پابنديوں کے ممکنہ خاتمے کی صورت ميں جنگجو سردار گلبدین حکمت یار بيس برس بعد افغانستان لوٹيں گے۔ ان کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ وہ ان دنوں پاکستان ميں مقيم ہيں۔
دريں اثناء ايک امريکی اہلکار نے بتايا ہے کہ حکمت يار اور حزب اسلامی کے خلاف عائد پابنديوں کے خاتمے کے حوالے سے کابل حکومت کی کسی بھی درخواست کا کافی سنجيدگی سے جائزہ ليا جائے گا۔ انہوں نے کہا، ’’اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل يہ فيصلہ کرتی ہے کہ کسی فرد پر عائد پابندياں اب درکار نہيں اور افغانستان ميں امن و استحکام کے مفاد ميں بھی نہيں، تو ہميں بھی اس کا جائزہ لينا پڑے گا۔‘‘
گلبدين حکمت يار اور ان کی پارٹی حزب اسلامی کو اقوام متحدہ نے غير ملکی دہشت گرد تنظيموں کی فہرست ميں شامل کر رکھا ہے۔ خود حکمت يار کو امريکا نے سن 2003 ميں ’عالمی سطح کا دہشت گرد‘ قرار ديا تھا۔ سابقہ طور پر شدت پسندانہ کارروائيوں، القاعدہ کی حمايت اور سن 1990 کی افغان خانہ جنگی کے دوران کابل پر راکٹ حملے کرنے کی وجہ سے حکمت يار کو افغانستان ميں عوامی سطح پر نا پسند کيا جاتا ہے۔